آیۂ کائنات کا معنیٔ دیریاب تو- نعت کے تخلیقی زاویے
(ریاض حسین چودھریؒ کا دوسرا نعتیہ مجموعہ ’’رزقِ ثنا‘‘جون 1999ء میں شائع ہوا۔ اس کا مختصر تعارف پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی نے لکھا جب کہ ریاض نے اس موقع پر اپنا قلبی اور روحانی احوال اس عنوان سے شامل کیا۔)
علم، حکمت اور دانائی مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس میراث کے اہل ثابت نہیں ہوسکے۔ طاقِ جاں میں جلنے والے چراغ خود غرضی پر مبنی مفادات اور وحشی خواہشات کی تیز آندھیوں اور شرک و الحاد کی طوفانی بارشوں کا سامنا نہ کرسکے اور اپنے دائرہ تصرّف میں آنے والی ہر چیز کو اجالنے کا ہنر بھی رفتہ رفتہ کھو بیٹھے۔ نتیجہ اس کا یہ برآمد ہوا کہ امت مسلمہ شبِ جہالت کے گھپ اندھیروں میں اپنے نظریاتی تشخص سے بھی محروم ہوتی چلی گئی۔ چنانچہ آج نظریاتی تشخّص کی تلاش تو ایک طرف ہم اپنی ثقافتی اکائی کے تحفظ کے لیے بھی خود کو ذہنی طور پر تیار نہیں پاتے۔ صدیوں تک اجتماعی سطح پر، اس گمشدہ میراث کی بازیابی کی کوئی سنجیدہ کوشش ہمارے دامنِ تحقیق و جستجو میں دکھائی نہیں دیتی۔ ہم نے علمی پسماندگی کو اپنے گلے کا ہار بنالیا، دامنِ آرزو کی ساری مشعلیں گُل کرکے ہم نے نامرادی کے اندھیروں کو اپنا مقدّر سمجھ لیا اور بانجھ ساعتوں کی فصلیں کاٹنے کی مشقّت خوشی خوشی قبول کرلی۔
تاریخ کی بکھری ہوئی کڑیوں کو ملائیے تو محرومیوں اور ناآسودگیوں کی ایک دلخراش داستان مجسم سوال بن کر ہمارے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ اس فکری انحطاط اور ذہنی زوال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علم کی مشعل جو ہمارا سب سے بڑا ثقافتی اعزاز تھا ہم سے چھین لی گئی۔ سقوطِ بغداد اور سقوطِ غرناطہ کے المیے اسلامی سلطنتوں کے خاتمے کا نوحہ تو بیان کرتے ہیں لیکن علم کی روشنی اور دانش کی تابندگی کے بہیمانہ قتلِ عام پر کسی کی آنکھ سے کوئی آنسو نہیں ٹپکتا۔ شاید اس لیے کہ ہم نے لفظ احتجاج کو بھی اپنی لغت سے خارج کرکے اس جمودِ مسلسل پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے جو دیمک کی طرح ہماری عظیم الشان روایات کے ذخیرے پر صدیوں سے حملہ آور ہے۔ گویا ہم عظمتِ رفتہ کی بازیابی کا ہر خواب اپنی بے عملی اور بے حسی کی قبر میں دفن کرچکے ہیں۔ نعت اپنی دونوں ہتھیلیوں پر علم کے چراغ سجا کر جہالت کے اندھیروں کے خلاف جہاد کا اعلان کرنے کا نام ہے۔ اتباعِ رسول ﷺ کی جمالیاتی تفسیر کو نعت کہتے ہیں۔ نعت حضور ختمی مرتبت ﷺ کے انقلابی کردار کی علمی توجیہہ کا نام ہے۔ رعنائیوں کے جھرمٹ میں سیّاحِ لامکاں ﷺ کے فضائل، شمائل اور خصائل کا بیان نعت کے ثقافتی آہنگ کا سب سے بلیغ استعارہ ہے۔ نعت ان لمحاتِ حضوری کی سرشاریوں کی عطا ہے جن میں شب کے پچھلے پہر پلکوں پر آنسوئوں کی کناری سی سجنے لگتی ہے اور شاعرِ خوشنوا چشمِ تصور میں ہوائے خلدِ مدینہ سے ہمکلامی کا شرف حاصل کرتا ہے۔ حضور ﷺ علم کا شہر ہیں اس لیے تحریکِ اسلامی فروغِ علم کی بھی تحریک ہے۔ نعتِ حضور ﷺ گویا عظمت و شوکت کے دنوں کی واپسی کا تمہید نامہ بھی ہے اور عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی ایک شعوری سعی بھی ہے جو جمالیاتی سطح پر اپنی انفرادی اور اجتماعی محرومیوں اور ناکامیوں کا ادراک کرکے ایک بار پھر انسانیت کو معلّمِ اعظم حضور سرورِ کونین ﷺ کی دہلیز سے جبینِ شوق کے سجدوں کی استواری کی آرزو مند ہے۔ نعت ہمارے ثقافتی تشخص کا سب سے مربوط، محفوظ اور مضبوط حوالہ بھی ہے۔ شہرِ علم ﷺ کے مقدّس، معطر اور معنبر دروازوں پر اپنی پلکوں سے دستک دینا اس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ جب مکینِ گنبدِ خضرا ﷺ کی چوکھٹ سے وابستگی کا احساس عمل کا پیرہن اپنے بدن پر سجانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو فکر و نظر کی منڈیروں پر شعور و آگہی کے ان گنت چراغ جل اٹھتے ہیں اور علم و دانش کے ان چراغوں کی روشنی میں منزلیں خود بڑھ کر غلامانِ مصطفی ﷺ کے قدموں کو بوسہ دینے کا اعزاز حاصل کرتی ہیں یعنی عظمتِ رفتہ کی تلاش کا پہلا اور آخری راستہ ممدوحِ ربِ دوجہاں ﷺ کی نعت نگاری ہے کہ تاجدارِ کائنات ﷺ سے غلامی کے رشتوں کو استوار کئے بغیر کوئی حوالہ بھی معتبر حوالہ قرار نہیں پاسکتا۔ نعت عروسِ دیارِ سخن ہے کہ اسے منصبِ دفاعِ رسولؐ عطا ہوا ہے اور دفاعِ رسولؐ ہی دفاعِ اسلام ہے۔ گویا اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا ہر تصور بھی حضور ﷺ کی نعت کے دامنِ خوش رنگ میں اجاگر ہوتا ہے، شاخِ نعت پر اس تصور کو اذنِ نمود ملتا ہے تو اس کی خوشبو چار دانگ عالم میں پرچمِ توحید بن کر لہرا اٹھتی ہے۔ بستی بستی، قریہ قریہ اللہ کی وحدانیت کا پھریرا کُھلتا ہے۔
ادب اپنے عہد کے تخلیقی اور سماجی رویوں کی کوکھ سے جنم لینے والی خوشبو کا نام ہے اور خوشبو کا امتیازی وصف یہ ہے کہ زمان و مکان کی حد بندیوں سے ماوراء ہوتی ہے۔ یہی خوشبو جب حسن وجمال کے پیکر میں سجتی ہے اور جذبات کی شبنم کے خنک اور گداز لمس سے ہمکنار ہوتی ہے تو لوحِ احساسات پر شعر کے نزول کی شفق پھوٹتی ہے۔ شاعری جب دہلیزِ مصطفی ﷺ کو چوم کر کیفِ دوام میں سرشار ہوتی ہے اور تخلیقی سطح پر خود سپردگی دائرہ عمل میں آتی ہے تو نعت قرطاس و قلم کو اپنے وجود کے اظہار کا اعزاز بخشتی ہے۔ اس وقت تک کسی لفظ کے سر پر فضیلت کا عمامہ نہیں سجایا جاتا جب تک وہ سیّدہ آمنہ علیہا السلام کے لال ﷺ کی قدم بوسی سے اعتبار کی سند اور غبارِ راہِ مدینہ کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کی سعادت حاصل نہ کرلے۔ نعت کائنات ہے اور کائناتِ نعت سے ماوراء کوئی شے نہیں، ہر تخلیق کائناتِ نعت میں موجود ہے۔
جدید اردو نعت میں استغاثے کا رنگ نمایاں ہے کربلائے عصر میں تشنہ لبی کا المیہ اتنا گھمبیر اور سنگین ہے کہ ساقیٔ کوثر ﷺ کے درِ اقدس کے سوا نظریں ہیں کہ کہیں اور ٹھہرتی ہی نہیں، نعت اپنی ثقافتی اکائی کے گرد منڈلاتے ہوئے خطرات سے گھبرا کر دامنِ مصطفی ﷺ میں پناہ لینے کی ایک شعوری کوشش ہے جو ہمیشہ کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ مسّدسِ حالی اور اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ کی باز گشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ اپنے عہد کا سارا آشوب آئینہ نعت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ نعت کے حوالے سے اسوۂ حسنہ کی پیروی کا شعور ایک تحریک بنتا جارہا ہے۔ معاشی ناانصافیوں اور معاشرتی ناہمواریوں سے لے کر ذات کے آشوب تک قدم قدم پر محرومیوں کی راکھ اپنے دامنِ دل میں سمیٹتا ہوا آج کا انسان سماجی اور معاشرتی عدل کے حصول کا تمنائی ہے اور نعت کا وسیع ہوتا ہوا کینوس تفہیم کے اَن گنت ذائقوں سے اسے روشناس کرارہا ہے۔ آج سے چودہ سو سال قبل جب فاران کی چوٹیوں پر آفتابِ رشد و ہدایت طلوع ہوا تو اس کے جَلو میں اُفق در اُفق دائمی امن کی بشارتیں بھی تحریر ہوئیں۔ نعت ان بشارتوں کی تعبیر کا وسیلۂ جلیلہ ہے۔ امن کی خواہش آج کے انسان کی سب سے بڑی خواہش ہے اور نعت اس خواہش کی تکمیل کا سب سے مؤثر ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے کہ پیغمبرِ انقلاب ﷺ نے جس پرامن، نیک اور صالح معاشرے کی بنیاد رکھی تھی آج اس عہدِ نا پرُساں میں اس معاشرے کا قیام اسی صورت میں ممکن ہے کہ خود حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس سے اس قلبی، حبّی اور عشقی رابطے کو مزید مستحکم بنایا جائے جسے اصحابِ رسول کے کشکولِ آرزو کا زرِ معتبر تسلیم کیا گیا ہے اور جس زرِ معتبر کے بغیر بازارِ عشق میں یوسف تو کیا سوت کی ایک اٹّی بھی نہیں خریدی جاسکتی۔ نفاذِ اسلام اور نفاذِ عدل دو مختلف چیزیں نہیں۔ جدید اردو نعت میں بھی یہی شعور فروغ پذیر ہے کہ ہمیں نفاذِ عدل کے ذریعہ انسانی معاشروں کو حیوانی معاشروں میں تبدیل ہونے سے بچانا چاہئے۔ اسی صورت میں انسان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاسکتی ہے ورنہ جنگل کا قانون آج کے انسان کے مقدّر پر مسلّط کردیا جائے گا۔
پاکستان اسلامی تشخّص کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید اردو نعت میں پاکستان کا حوالہ اپنی پوری تخلیقی توانائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ 65ء کی پاک بھارت جنگ نے ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلایا تھا اور 28 مئی 1998ء کو پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی کوکھ سے پھوٹنے والے لمحۂ مسّرت نے از سرِ نو مسلم امہ کو اپنی پہچان کا شعور عطا کیا ہے۔ یہ شعور مسلم امہ کی سوچوں کا مرکز و محور بنا ہے کہ پاکستان عالمِ اسلام کی پہلی دفاعی لائن ہے اور یہ کہ پاکستان پوری ملتِ اسلامیہ کی امانت ہے اور اس امانت میں خیانت کا تصوّر بھی مسلکِ عشق سے غدّاری کے مترادف ہے۔
وہ فاقہ کش مسلمان جو صدیوں پر محیط عہدِ ناروا کے صدمات برداشت کرتا چلا آرہا ہے، محرومیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں کی دستاویز جس کے دونوں ہاتھوں میں تھمادی گئی ہے، جس کاجسم ہی نہیں روح بھی زخموں سے چور چور ہے، بے پناہ افرادی قوت اور مادی وسائل کی فراوانی کے باوجود بے توقیری کی فصلیں کاٹنا جس کی جوان نسلوں کا مقدّر بنادیا گیا ہے، عظمت، تمکنت اور وقار جیسے الفاظ جس کی لغتِ عمل سے حذف کردیئے گئے ہیں جو آئینہ خانے میں خود اپنے آپ کو شناخت کرنے سے قاصر ہے، عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی آرزو بھی جس کے سینے میں دم توڑ چکی ہے اور جو سوکھے ہوئے پتوں کی طرح تیز و تند ہوائو ںکے رحم و کرم پر ہے، وہ مسلمان جس کی سوچوں کے تمام کواڑ مقفّل کردیئے گئے ہیں، بے غیرتی، بے حمیتی اور بے عملی کا زہر جس کی رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے، جو اپنی عظیم روایات سے رشتہ توڑ کر گمراہی کے اندھیروں کے گہرے سمندروں میں گم ہوتا جارہا ہے، غبارِ تشکیک میں شبہات اور ابہام کی فصلیں کاٹتے کاٹتے جس کے دونوں بازو شل ہوچکے ہیں، وہ مسلمان جس کے سارے ثقافتی اثاثے لٹ چکے ہیں اور جو سر اٹھا کر چلنے کی خوئے دلنواز کو بھی جمودِ مسلسل کے برف زاروں میں گم کرچکا ہے وہ مسلمان اپنی تمام تر محرومیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود ایک جذبے کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے اور ابلیسی سازشوں کے اژدہام میں اس نے جس چنگاری کو بجھنے نہیں دیا وہ عشقِ رسول ﷺ کی چنگاری ہے جو ازل سے اس کے سینے میں سلگ رہی ہے۔ اقبالؒ جسے روح محمدؐ سے تعبیر کرتے ہیں دشمنانِ اسلام اپنی تمام تر علمی خیانتوں، تحقیقی لغزشوں اور فکری مغالطوں کے باوجود اس فاقہ کش مسلمان کے جسم سے روح محمدؐ کو نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔ نعت اسی روح محمدؐ کے جمالیاتی اظہار اور شعری پیکر کا نام ہے۔ آخرِ شب تصورِ محبوبِ کبریا ﷺ میں آنکھیں جن موتیوں سے لبریز ہوجاتی ہیں، دامنِ آرزو جن آنسوئوں سے بھیگ جاتا ہے اور پلکوں پر جو ستاروں کے جھرمٹ سے اتر آتے ہیں وہی موتی، وہی آنسو اور وہی ستارے ثنا کا رزق ہیں اور رزقِ ثنا اِسی وژن کی عکس بندی کی کہانی ہے۔ وہ کہانی جو ذاتِ مصطفی ﷺ سے شروع ہوکر ذاتِ مصطفی ﷺ پر ختم ہوجاتی ہے۔
ریاض حسین چودھری
لاہور: 28 مئی 1999ء