اقبالؒ کی از سرِ نو دریافت- نعت کے تخلیقی زاویے
(فروری 2012، روزنامہ نوائے وقت)
اقبالؒ کا عظیم الشان فکری نظام کھوئے ہوئوں کی جستجو سے عبارت ہے، احیائے اسلام، اتحاد امت اور غلبۂ دین حق کی بحالی اقبال کے انقلابی سفر کے وہ مقاصد جلیلہ ہیں جن کے گرد شاعر مشرق کی سوچ ہمیشہ مصروفِ طواف رہی ہے اور وہ کسی مرحلے اور کسی سطح پر بھی ان مقاصد کو اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا، اگر محض مرقدِ اقبالؒ کے مجاور بن کر ہم اپنے پیٹ کے ایندھن کی فراہمی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی تگ و دو میں نہیں اور ہم ابتلا و آزمائش کے اس دور میں خلوص دل سے فکر اقبال کو اپنے قول و فعل کا مرکز و محور بناکر اپنی خارجہ پالیسی کو اس طرح متعین کرنا چاہتے ہیں کہ اسلامی تشخص کی تلاش کے سفر میں اٹھائی جانے والی دیواریں بھی مسمار ہوجائیں بلکہ عالم اسلام کی بے پناہ افرادی قوت اور مادی وسائل کو یکجا کرکے عالم کفر کے خلاف ایک ایسے اسلامی بلاک کے قیام کی راہ بھی ہموار ہوجائے جس سے باطل کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہوجائے تو ہمیں ہر قدم پر فکر اقبال سے روشنی کشید کرنا ہوگی، اس وقت عالم اسلام اغیار کی ریشہ دوانیوں کا ہدف بنا ہوا ہے ہم اپنی حماقتوں اور کوتاہیوں سے دشمنانِ اسلام کی سازشوں کی شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر تکمیل کررہے ہیں، مسلم امہ پر بے غیرت اور بے حمیت حکمران مسلط ہیں۔ وہ اپنی خاندانی اور شخصی حکومتوں اور آمرانہ جمہوریتوں کو بچانے کے لیے اپنے بچوں کے مستقبل تک کو بھی گروی رکھنے سے دریغ نہیں کرتے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے سجدے ریاکاری کی علامت بن گئے ہیں، عبادت محض رسم بن گئی اور اس کی حقیقی روح ناپید ہوگئی ہے، اقبال نے اسی صورتحال کی سنگینی کا ماتم کرتے ہوئے کہا تھا:
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گذر ایسے امام سے گذر
علم کے فروغ اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول کے بغیر مسلم امہ بے توقیری کے جہنم سے نہیں نکل سکتی اور نہ قوموں کی برادری میں کھویا ہوا مقام ہی حاصل کرسکتی ہے۔ جہالت ہمارا ہی نہیں پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ چند ایک ممالک کو چھوڑ کر اکثر اسلامی ممالک میں شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے۔ جب ہم فروغ علم کے لیے اتنے غیر سنجیدہ ہیں کہ ہمارے قومی بجٹ کا 2% بھی تعلیم پر خرچ نہیں ہوتا تو ہم جدید سائنسی علوم کو کیسے فروغ دے سکیں گے اور جدید تر ٹیکنالوجی کا حصول کیونکر ممکن ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب ہم اکیسویں صدی کی دہلیز کو عبور کریں تو ہماری دونوں ہتھیلیوں پر علم کے چراغ جل رہے ہوں کیونکہ اگلی صدی کفر اور اسلام کی کھلی جنگ کی صدی ہے۔ اس جنگ میں علم اور ٹیکنالوجی کا ہتھیار ایٹم بم سے بھی زیادہ مؤثرثابت ہوگا لیکن افسوس نئی نسل کو رقص و سرود کا دلدادہ بناکر ان کی بے پناہ تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کو مفلوج کیا جارہا ہے۔ ذہنِ جدید کو عریانی، فحاشی، بے حمیتی اور بے غیرتی کے انجکشن دے کر اسے شعور کی موت سے ہمکنار کرنے کی سازش کی جارہی ہے، جب شعور اور ادراک کے دیئے بجھ جائیں، سوچنے، سلجھنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجائے تو قوموں کے مقدر میں اندھیرے لکھ دیئے جاتے ہیں۔ اقبال نے اسی ابلیسی تہذیب کے علم داروں کو گندے انڈے کہہ کر انہیں اٹھا کر گلی میں پھینک دینے کی ہدایت کی تھی لیکن انہوں نے ان گندے انڈوں کو اپنے گلے کا ہار بناکر اپنا مستقبل ان غلیظ ہاتھوں میں دے دکھا ہے جن پر اُس بازار کی ساری کثافت رقص کناں ہے، وقت ہماری بے بصیرتی کا ماتم کررہا ہے۔ ہم روحِ اقبال سے شرمسار ہیں کہ ہم ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور کائنات کی تسخیر کا عزم کرنے کی بجائے شراب و شباب کے سمندر میں غرق ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں اور ہماری نئی نسل اپنے شاندار ماضی سے کٹ کر یورپ کے بے روح اور بے سکون معاشرے سے اپنا مستقبل وابستہ کررہی ہے حالانکہ یہ کھوکھلی تہذیب شاخ نازک پر آشیانہ بناکر اپنے خنجر سے کب کی خودکشی کرچکی ہے، آج مسلم امہ ایک دوراہے پر کھڑی ہے، تذبذب کے عالم میں، حیرتوں کے سمندر میں گم:
آگ ہے، اولادِ ابراہیمؑ ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
لیکن مسلم امہ کی ذہنی اور فکری پس ماندگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایسی دنیائے رنگ و بو میں کسی امتحان کے لیے بھی تیار نہیں، اقبالؒ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھا تھا، حرم کی پاسبانی کے لیے مسلمانوں کے یکجا ہونے کی تمنا کی تھی اور اسلامیان عالم کو یہ نکتہ سمجھایا تھا کہ دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کرنے کے لیے راہِ عشق میں دیوانہ وار نکل آئو، اپنے بدن میں روحِ محمدؐ کو کبھی مرنے نہ دینا، اسے اپنے لہو کی حرارت میں زندہ رکھنا، یہی اسم گرامی اور یہی ذکر جمیل تمہیں عظمت کی بلندیاں عطا کرے گا۔ اگر عشقِ مصطفی کی آگ بجھ گئی تو تم راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائو گے اور راکھ کے ڈھیر میں دم توڑتی چنگاریاں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتیں اور رفتہ رفتہ یہ چنگاریاں بھی راکھ کا پیرہن اوڑھ لیتی ہیں لیکن ہم نے کیا کیا؟ حضور ختمی مرتبت کی ذاتِ گرامی کو بھی مباحث کا موضوع بنالیا اور ابلیس کی اس ہدایت پر پوری نیاز مندی سے عمل کرنے لگے۔
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
برطانوی استعمار اگر اپنے مذموم مقاصد کے لیے مناظروں کی فضا برقرار رکھ کر اسلامیان ہند کے ذوقِ ایمان پر شب خون مارا کرتا تھا تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن آزادی حاصل کرنے کے تقریباً پچاس سال بعد بھی ہم ان فلسفیانہ موشگافیوں اور فکری مغالطوں کی دلدل سے کیوں باہر نہیں نکل آتے، فرقہ واریت کا زہر ہماری رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے، ہم نے حضورؐ کی ناآسودہ امت کو ان گنت خانوں میں تقسیم کررکھا ہے، مسالک کے تحفظ کے لیے تو ہم اپنی گردنیں کٹانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن دین کی سربلندی کے لیے سربکف چلنے کی خوئے دلنواز کو اپنانے سے کتراتے ہیں، سوویٹ روس کے بکھرنے کے بعد مغربی پروپیگنڈے کا رخ اسلام اور اسلامیانِ عالم کی طرف کردیا گیا ہے، بنیاد پرستی کی آڑ میں ہر جگہ اسلامی تحریکوں کا راستہ روکا جارہا ہے، اسلام کو مسجدوں، مدرسوں اور خانقاہوں تک محدود کرکے بطورِ نظام حیات اسلام کے نفاذ اور اس کے انقلابی کردارکے احیاء کے ہر امکان کو ختم کیا جارہا ہے، ’’کارکنانِ قضا و قدر‘‘ اب اسلام کا نام بھی معذرت خواہانہ انداز میں لیتے ہیں۔ اقبال نے اسی قسم کے مسلمانوں کے بارے میں کہا تھا کہ انہیں دیکھ کر تو یہودی شرما جائیں، معلوم نہیں ہمارا شعور کب جاگے گا۔ ہماری دینی غیرت کب بیدار ہوگی، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، آج اقبالؒ کی روح مضطرب ہے، بے چین ہے اور ہر لمحہ ہماری انفرادی اور اجتماعی حرکتوں پر کڑھتی رہتی ہے کہ جس عمل سے زندگی بنتی ہے وہ عمل بے عملی کی برف تلے کب کا دفن ہوچکا ہے، روحِ محمدؐ کو پھر زندہ و بیدار کرنے کی ضرورت ہے، خوشبوئے اسم محمد کے پرچم لے کر نکلو کہ منظر نامہ بانجھ ساعتوں اور بنجر لمحوں سے پہلے ہی بھر چکا ہے۔ سوز و گداز کی مشعلیں بجھ چکی ہیں۔ اقبال کی روح پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے
یہی وہ نعتِ رسول ﷺ ہے جو اقبال کے نظام فکر کی روح ہے۔ ’’پست کو بالا کرنا‘‘ اور ’’دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اجالا کرنا‘‘ قوت عشق کے بغیر ممکن نہیں۔نعت قوتِ عشق سے ہے اور قوتِ عشق سے نعت ہے۔ ادب رسول ﷺ اس کا پہلا زینہ ہے، اطاعتِ رسول اس کا دوسرا زینہ ہے، تعظیمِ رسول اس کا تیسرا زینہ ہے اور نصرتِ رسول اس کا چوتھا زینہ ہے اورتوصیف و ثنائے خواجہ اور درود و سلام اس عملِ مسلسل کی ایمانی بنیاد ہے۔ نعت اسی کیفیت عشق کا جمالیاتی اظہار ہے جو خود رو پھولوں کی طرح شاخِ سخن پر کھلتا چلا جاتا ہے جیسے اقبال پر کلام کی آبشار اترتی تھی۔اقبال کی از سرِ نو دریافت اس کے نظام فکر کے احیا اور اس کی نعت رسول ﷺ کی ترویج سے ممکن ہے جس کا تعلق وجدانی اور لدنّی کیفیات سے ہے۔
مگرہمارے نظام فکر کی ہچکیاں تو زمینی حقائق سے ظاہر ہو رہی ہیں۔ روز و شب پرجمود طاری ہے، ایک خوفناک سکوت جو موت کی علامت ہے، ہمارے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں، طوفانوں سے آشنائی تو بہت بعد کی بات ہے، امید کی ایک کرن ابھر کر نجانے کس خرابے میں کھوگئی۔ کمیونزم کی موت کے بعد تب وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں، ستر سالہ سیاہ رات کی کوکھ سے امام بخاری کی سرزمین طلوع ہوئی تو وہ پر امید نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسلامی بلاک کے قیام کے آثار روز روشن کی طرح واضح ہوچکے تھے، وسط ایشیا کی مسلمان ریاستیں، ایران، افغانستان، ترکی اور پاکستان مل کر ایک عظیم اقتصادی، سیاسی اور عسکری قوت بن کر ابھر سکتے تھے، یہ ممالک آگے بھی بڑھے لیکن اڑنے سے پہلے ہی ان کے پر کاٹ دیئے گئے۔ کہاں یہ محسوس ہورہا تھا کہ مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع ہوا کہ ہوا، اور کہاں یہ عالم کہ وسط ایشیا دوبارہ روس کی طرف دیکھنے لگا، افغانستان میں خانہ جنگی کراکر سامراج نے دو مقاصد حاصل کئے۔ ایک یہ کہ مجوزہ اسلامی بلاک کے قیام کے بارے میں پہلی سی گرمجوشی باقی نہ رہی اور تجارتی مراسم غیر محفوظ راستوں کی وجہ سے ٹھوس بنیادوں پر استوار نہ ہوسکے، دوسرے یہ کہ افغانستان کو خانہ جنگی میں الجھا کر یہاں اسلامی حکومت کے قیام کے امکانات کو ختم کردیا گیا، بوسنیا، چیچنیا اور کشمیر کے مسلمانوں کا خون اپنا خوں بہا طلب کرتا رہا لیکن مسلم امہ کے حکمران مصلحتوں کی زنجیر پہن کر آنکھیں بند رکھ کر امریکہ سے نیک چلنی کی سند حاصل کررہے تھے۔ مولانا جمال الدین افغانی سے اقبالؒ تک مشاہیر امت نے اتحاد امت کا جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندۂ تعبیر ہوئے بغیر ہماری کوتاہیوں سے بکھر گیا، اقبال نے تنبیہ کردی تھی کہ
فطرت افراد سے اغماص بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
ہم اپنے اجتماعی گناہوں کے جہنم میں جلتے رہے، ملت کے گناہوں کی دلدل اتنی گہری ہوچکی ہے کہ جانکنی کے عالم میں بھی ہم صدائے احتجاج بلند کرنے سے قاصر ہیں اور مخالف ہوائوں کے رخ پر سفر جاری رکھ کر اپنی منزل سے بتدریج دور ہورہے ہیں۔
اقبالؒ نے 1930ء میں الہ آباد میں اپنے خطبے میں دو قومی نظریہ پیش کیا تھا۔ بانی پاکستان نے کہا تھا کہ دو قومی نظریہ اس وقت وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلے غیر مسلم نے اسلام قبول کیا تھا، دو قومی نظریہ حق و باطل کی آویزش کا نام ہے۔ دو قومی نظریے کی وضاحت مطلوب ہو تو طائف کے اوباش لڑکوں کے ہاتھوں سے ہونے والی بارشِ سنگ میں پیغمبر اعظمؐ کی استقامت کو دیکھو اور ان کے مقدس ٹخنوں سے بہنے والے خون سے بننے والی تحریروں کو پڑھنے کی کوشش کرو، دو قوی نظریے کی مزید وضاحت مطلوب ہو تو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں کھلے آسمان تلے رسولِ آخر کے گھرانے پر ٹوٹنے والے آلام و مصائب کی زبان سمجھنے کی سعی کرو، اپنے عہد کی دانش کی آواز سنو کہ تبلیغ دین اور اقامت دین کا ہر راستہ طائف کی وادیوں سے ہوکر گزرتا ہے، دو قومی نظریے کے خلاف اگر تمام کڑیوں کو مربوط کیا جائے تو ایک خوفناک سازش کا انکشاف ہوتا ہے، وہ یہ کہ دو قومی نظریے کے حوالے سے قوم کو ایک فکری انتشار میں مبتلا کردیا جائے، پاکستان کے ذرے ذرے سے محبت کرنے والے اہل وفا کے ایمان کو متزلزل کردیا جائے، جب بنیادوں ہی میں پانی بھر جائے گا تو ان بنیادوں پر تعمیر ہونے والی عمارت، خاکم بدہن، کسی وقت بھی زمین بوس ہوجائے گی۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو پاکستان کوایک سیکولر سٹیٹ بنانے کی راہ ہموار ہوجائے گی، پاکستان کے اسلامی تشخص پر یہ پہلا وار نہیں۔ حشرات الارض کی طرح رینگنے والے کیڑوں نے خود ساختہ دانشوروں کے روپ میں ایک عرصے سے یہ پروپیگنڈا شروع کررکھا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ کا نعرہ تو بچوں کا نعرہ تھا اور یہ کہ تحریک پاکستان ہندو کی اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے برپا کی گئی تھی۔ بعض بدبخت حلقے یہ بھی کہتے رہے ہیں اور ان کی فکری نسلیں آج بھی اس خطہ دیدہ و دل پر آباد ہیں کہ پاکستان تو انگریز کے ذہن کی اختراع ہے۔ یہ لوگ آج بھی ہندو کی آغوش میں بیٹھ کر حکومت الہیہ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا نعرہ ہے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ علامہ اقبال نے اس باطل نظریے کی گرفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
ہندو اگر کسی چیز سے خائف ہے تو وہ یہی دو قومی نظریہ ہے، وہ جانتا ہے کہ اگر دو قومی نظریہ زندہ رہا تو بھارت میں کئی پاکستان معرضِ وجود میں آسکتے ہیں، سقوطِ مشرقی پاکستان پر اندرا گاندھی نے دو قومی نظریے کے بارے میں جو زہر اگلا تھا وہ پوری ہندو قوم کے ذہن کی عکاسی تھی، حالانکہ دو قومی نظریہ ایک آفاقی سچائی ہے، مسلمان اور ہندو دو الگ تہذیبوں کے نمائندہ ہیں، لال بجھکڑ قسم کے دانشور لاکھ راگ الاپتے پھریں کہ ہندو اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندو ہندو ہے اور مسلمان مسلمان۔ کیا یہ لوگ بھول گئے کہ قیام پاکستان سے قبل ریلوے اسٹیشنوں پر ہندو بانی اور مسلمان بانی کی صدائیں گونجا کرتی تھیں، کسی مسلمان کا ہندو سے چھو جانا اسے بھڑشت کردیتا تھا۔ کیا ہندو اور مسلمان آپس میں شادیاں کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو ہندو اورمسلمان ایک قوم کیسے ہوسکتے ہیں، کیا مسلمانوںاور ہندوئوں کے ہیروز ایک ہیں؟ کیا ہندو محمد بن قاسم اور سلطان محمود غزنوی کے لیے اپنے دل میں جگہ پید اکرسکتے ہیں؟ بوسنیا، چیچنیا اور کشمیر میں دو قومی نظریہ بھی روز روشن کی طرح جگمگا رہا ہے۔ اگر کسی کے پاس پڑھنے والی آنکھ ہی نہیں تو اس میں ابدی سچائیوں اور تاریخی صداقتوں کا کیا قصور؟ پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں دو قومی نظریے سے انحراف کی سزا موت ہونی چاہیے، پاکستان کوئی لاوارث چراہ گاہ نہیں کہ اپنے کھونٹے سے دستی تڑواکر آنے والے ہر باولے کتے کو اس مقدس سرزمین کی بے حرمتی کی اجازت دے دی جائے۔ پاکستان کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ اس کے اقتدار اعلیٰ کو کسی کی انا پر قربان کردیا جائے۔ روح اقبال ہم سے مخاطب ہے، ہمیں خبردار کررہی ہے کہ آج پورا یورپ امریکہ اور یہود و ہنود چراغ مصطفوی کو بجھانے کے لیے سازشوں کا جال بچھا رہے ہیں، اقوام متحدہ امریکہ کی داشتہ کاکردار ادا کررہی ہے، ہماری ثقافتی اکائی کا تحفظ تبھی ممکن ہے جب ہم یاسر عرفات کا کردار اپنانے سے صاف انکار کرکے اپنی ملّی انا کو بکھرنے سے بچا لیں لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے معجزوں کے منتظر ہیں۔ آج اگر بھارت دوسرا ایٹمی دھماکہ بھی کرلے تو مغربی دنیا بھارت سے چشم پوشی کا وہی وطیرہ اپنائے گی جس کا عملی مظاہرہ اس نے پرتھوی کے تجربے پر کیا ہے۔ ہمیں جرأت مندانہ قدم اٹھا کر ایٹمی دھماکہ کردینا چاہیے۔ آزادی انہی قوموں کا مقدر بنتی ہے جو تلوار اٹھانا جانتی ہیں، آزادی طشتری میں رکھ کر کمزور قوموں کو تحفتاً پیش نہیں کی جاتی، اس ارض دعاکی تشنہ زمینیں، شاداب موسموں اور خنک پانیوں کے لیے ایٹمی توانائی کا مطالبہ کرتی ہیں ایک مضبوط پاکستان ہماری نہیں پورے عالم اسلام کی ضرورت ہے، جرمِ ضعیفی کی سزا بہت کڑی ہوتی ہے، لمحوں کی خطا کا خمیازہ کئی کئی نسلوں کو بھگتا پڑتا ہے، اقبال نے کہا تھا۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ اقتصادی بالادستی ہی سیاسی بالادستی کا پیش خیمہ ہوتی ہے لیکن آج ہم اقتصادی اور سیاسی محکومی کی زنجیر خود پنے ہاتھوں سے پہننے کی حماقت کررہے ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعہ تیسری دنیا کے غریب ممالک جن میں مسلم ممالک کی اکثریت ہے کے گرد سیاسی اور اقتصادی غلامی کے حصار کو تنگ کیا جارہا ہے تاکہ غریب اقوام کشکولِ گدائی لیے سامراجی طاقتوں کی دہلیز پر سجدہ ریز رہیں اور کبھی سر اٹھا کر چلنے کا تصور بھی نہ کرسکیں۔ اقبال کا سارا فکری نظام اس آمرانہ سوچ کے خلاف ہے۔ یہ نظام ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر خودی کی بیداری کا درس دیتا ہے، اگر ہم اسلامیانِ عالم کے سر پر وقار اورتمکنت کا تاج دیکھنے کے آرزو مند ہیں تو عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے لیے پہلے مرحلے پر ہمیں اقبال کو از سر نو دریافت کرنا ہوگا، اگر ہم مصطفوی انقلاب کے سورج کو طلوع ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں تو مصطفوی انقلاب سے پہلے فکری اور ذہنی انقلاب کے لیے فکری اقبال کا احیاء ضروری ہے۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
o