حریمِ دیدہ و دل میں چراغاں- نعت کے تخلیقی زاویے
( شیخ عبدالعزیز دباغ کے مجموعہ کلام ’’مطافِ نعت‘‘ کی تعارفی تحریر)
نعت درود و سلام کے پیکرِ شعری کا نام ہے۔ نعت حریمِ دیدہ و دل میں چراغاں کا اہتمام کرتی ہے، اللہ رب العزت تک رسائی کا ہر راستہ دہلیز مصطفی کو چوم کر عرش معلی تک جاتا ہے۔ دعا درود کی چادر میں سمٹنے کی ادا بھول جائے تو وہ زمین و آسماں کے درمیان معلق رہتی ہے۔ نعت بنیادی طور پر حضور ﷺ کے شمائل، فضائل، خصائل اور خصائص کے سدا بہار مقدس اور سرمدی پھولوںسے خوشبوئیں کشید کرنے کا نام ہے۔ نعت کا اساسی رویہ آقاؐ کی ذاتِ اقدس کے انہی حوالوں سے ابلاغ پاتا ہے۔ غلامانِ حضور ﷺ کی داخلی اور خارجی زندگی کے اردگرد پھیلے ہوئے ان گنت مسائل اور مصائب بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر نعت کا موضوع بن کر نعت کے کینوس کو وسیع سے وسیع تر کرتے جا رہے ہیں۔ حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز ہی نعت کے مضامین میں شامل ہوسکتی ہے مثلاً شہر حضور ﷺ کا ذکر بھی نعت ہی ہے، شہرِ بے مثال کی ہواؤں، فضاؤں،شہرِ مصطفی کی گلیوں، پرندوں، در و دیوار کا تذکرہ بھی نعت کے دامن تخلیق کا حصہ قرار پائے گا، شہر مدینہ کے مکینوں کا ذکر بھی نعت میں آکر نعت بن جائے گا۔ پھر درِ مصطفی ﷺ ، مواجہہ اقدس، سنہری جالیاں، ریاض الجنہ، مسجد نبوی، گنبد خضرا نعت ہی نعت، ثنا ہی ثنا، حتیٰ کہ شائستگی، متانت اور سنجیدگی کے درمیان رہ کر تمام زمینی حقائق اور کائنات کی سچائیاں نعت کے مضامین میں شمار ہوسکتی ہیں۔
اس لئے اکیسویں صدی میں تخلیق ہونے والا نعتیہ ادب قدیم نعت سے مختلف نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود اس کا تخلیقی ربط ماضی سے ٹوٹنے نہیں پاتا۔ نعت کا اساسی رویہ آج بھی جوں کا توں موجود ہے۔ آج کا مدحت نگار بھی شعرائے دربارِ رسول ﷺ کے آثارِ قلم سے اکتسابِ شعور کرتے ہوئے تخلیقِ نعت کی شاہراہِ عظیم پر گامزن ہے اور سعادتوں کے پھول سمیٹ رہا ہے۔ یوںجدید اردو نعت کا منظر نامہ اتنے رنگوں، روشنیوں اور خوشبوؤں کا مرقع نظر آتا ہے کہ ان سب کو حیطۂ ادراک میں لانا ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ شعور محض توفیق خداوندی ہے۔
یہی توفیقِ خداوندی ’’مطافِ نعت ﷺ ‘‘ کے شاعر شیخ عبدالعزیز دباغ کا مقدر بھی بنی ہے، افقِ نعت پر سوچ اور اظہار کے نئے سورج کے طلوع ہونے کی بشارت تحریر ہو رہی ہے۔
’’مطافِ نعت‘‘ شیخ عبدالعزیز دباغ کا پہلا نعتیہ مجموعہ ہے۔ اس کا آغاز ربِ کائنات کی بارگاہِ صمدیت میں حروفِ التجا سے ہوتا ہے کہ مجھے توفیق دے، میں قیامِ حشر تک مطافِ نعت میں چلتا رہوں۔ اے خالقِ ارض و سماوات! میرا یہ طوافِ قلم کبھی ختم نہ ہو اور ابد تک ثنائے رسول ﷺ کی تجلیات میں گم رہوں۔
کبھی نہ ختم ہو، یا رب! مرا طوافِ قلم
مطافِ نعت میں چلتا رہوں قیامت تک
اپنے بندۂ محتاج ہونے ہی کا نہیں اپنی بے نوائی کااحساس بھی دامن گیرہے۔ شعورِ بندگی ان کے دائرہ عمل کا عنوان ہے۔
مَیں ایک بندۂ لاچار حمد کیا لکھوں
مَیں لوحِ دل پہ اسے ربِّ مصطفیٰؐ لکھوں
جو لا شریک ہے، یکتا ہے، سب کا خالق ہے
میں کائنات کے مالک کی کیا ثنا لکھوں
شیخ عبدالعزیز دباغ حضورِ حق رکوع و سجود کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ممدوحِ ربّ کائنات کی بارگاہِ بیکس پناہ میں تصویرِ ادب بن کر محوِ ثنا ہیں۔ خود سپردگی اور وارفتگی کا احرام باندھ کر لمحاتِ حضوری کے کیفِ دوام میں کھو جاتے ہیں، شاعر پیکرِ عجز بن کر اپنے آقا ﷺ کے درِ عطا پر التماس گزار ہے۔
ہونٹوں کو ہو نصیب درِ نور چومنا
چشمانِ تر کو دید کی دولت عطا کریں
حرص و ہوا کی دوڑ میں شامل نہیں ہوں مَیں
مجھ کو متاعِ فقر و قناعت عطا کریں
درودوں کے نغمے تسکین کا باعث بنتے ہیں تو شاعر کی روح جھوم اٹھتی ہے، پلکوںپرستارے چمکنے لگتے ہیں حریمِ دیدہ و دل میں چراغاں ہونے لگتا ہے اورکِشتِ آرزو میں بادِ بہاری چلنے لگتی ہے، ’’مطافِ نعت‘‘ میں سیرتِ رسول ﷺ کا عکسِ جمیل دکھائی دیتا ہے۔ حضور ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کا نور لفظ لفظ کو اعتبار و اعتمادکی تجلی عطا کرتا ہے، درِ حضور ﷺ پر حاضری کی تڑپ اور پھر حضوری کی آرزو ان کی نعت کا وہ اساسی رویہ ہے جو ورق ورق پر سوز و گداز کی مشعلیں روشن کرتا چلا جاتا ہے۔
مَیں جب سے کوچۂ جاناں سے ہو کے آیا ہوں
تڑپ رہا ہوں کہ پھر سے بہار آ جائے
در حبیبؐ پہ جو کچھ ہوا وہ یاد آئے
جو آ کے چھیڑے مرے دل کے تار، آ جائے
صبح و مسا نظر میں درِ مصطفیٰؐ رہے
ہر وقت میرے سامنے اُنؐ کی رضا رہے
دل میں وفورِ شوق کا طوفاں بپا رہے
آنکھوں میں انتظار کا دریا رکا رہے
وہ حبِ نبی کی کیفیت کو طبعی طور پر بھی محسوس کرتے ہیں۔
بہتی رہے رگوں میں یونہی یادِ مصطفیٰؐ
میرا وجود نور کا قلزم بنا رہے
اور اپنے دل کی دھڑکن کو ذکرِ’ نبی نبی‘ سے مترنم کرتے اور بارگاہِ پیمبرؐ میں لمحاتِ حضوری پر ساری زندگی قربان کرتے نظر آتے ہیں۔
اترا ہے دل میں نقشِ کفِ پا حضور ﷺ کا
رفتار کہہ رہی ہے مسلسل نبی ﷺ نبی ﷺ
کل تک تو بارگاہِ پیمبر ﷺ میں تھا عزیز
قربان میرے کل پہ مری ساری زندگی
حصولِ رضائے نبی ﷺ کا غم ان کی ذات، شخصیت اور فکرِ نعت کا مرکز و محور ہے۔ اسی غم سے وہ حصولِ نسبت، حضوری، درِ رسول پر حاضری اور قدمَینِ پاک میں التجاؤں کی کیفیات میں ملفوف نظر آتے ہیں۔ اس غم کا اظہار ان کی نعت میں جابجا ملتا ہے۔
جو کوئی غم ہے تو بس ہے غم رضائے رسول
ہزار خوف ہوں لیکن کوئی خطر بھی نہیں
عزیزؔ ان کی رضا کا غم ہے وہ راضی خدا راضی
مَیں توبہ کی دعا کرتا رہوں جا کر مدینے میں
ہو جن کی نعت میں پنہاں غمِ رضائے نبی
انہیں فراغ کا سودا و سر نہیں ہوتا
شیخ دباغ کے نعتیہ کلام میں سیرت نعتِ رسولؐ کا ایک صحت مند حوالہ ہے۔ ان کی فکر نعت کو انسان کے وسیع تر معاشرتی، تمدنی اور تہذیبی تناظر میں دیکھتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نعت سنتِ رسولؐ کے تتبع میں معاشرتی اکائیوں کو ایک وحدت میں پرونے کا نام ہے جس کی بنیاد خُلق و وفا کی قدروں پر رکھی جاتی ہے اور جہاں فتنہ گری، جفا شعاری، تفرقہ اور انتشار کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی بلکہ یہ تو سیرت الرسولؐ کی پیروی میں لاچاروں کی چارہ گری کا نام ہے اور اس عمل میں انسان بیخود ہو جاتا ہے۔ اور نہ ہو سکے تو ندامت میں ڈوب جاتا ہے۔اس طرح نعت مدحتِ رسولؐ سے آگے بڑھ کر ایک ستایشی معاشرتی رویہ بن جاتا ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
بہارِ نعت پیامِ امن ہے لوگوں کو
کہ اِس نگر میں کوئی فتنہ گر نہیں ہوتا
بہشتِ نعت میں رہتے ہیں اہلِ خُلق و وفا
جفا شعار کا اس میں گذر نہیں ہوتا
حصارِ نعت بچاتا ہے تفرقوں سے ہمیں
یہ کوہسار ہے زیر و زبر نہیں ہوتا
سرودِ نعت مداوا ہے غم نصیبوں کا
وہ لوگ جن کا کوئی چارہ گر نہیں ہوتا
ان کے نزدیک نعت غلامانِ رسول کا ایک اخلاقی رویہ ہے۔ محبت رسولؐ کی کیفیت میں ڈوب کر وہ صفائے قلب اور اخلاقی پاکیزگی کو زندگی کی بنیاد بنا لیتے ہیں۔ پھر ان کا ہر عمل کیفیتِ نعت میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔
جو ہو حضورؐ سے نسبت تو نعت ہوتی ہے
ملی ہو آپؐ کی شفقت تو نعت ہوتی ہے
غمِ رضا ہو، ندامت ہو، خوفِ عقبیٰ ہو
ہو لب پہ حرفِ صداقت تو نعت ہوتی ہے
روشن رہے معارفِ سیرت کی کہکشاں
اوراقِ جاں پہ اسمِ محمدؐ لکھا رہے
ندامت شیخ دباغ کی نعت کا ایک اساسی رویہ ہے۔ وہ ہمیں جابجا ندامت میں ڈوبے ملتے ہیں۔ اور اپنے اشکِ ندامت کو خراجِ تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک نجی محفل میں جہاں ان سے ’شکر‘ کے حوالے سے اظہارِ خیال کے لئے کہا گیا تو کہنے لگے، ’میں تو ابھی ندامت ہی سے باہر نہیں نکلا۔ ‘ چنانچہ ندامت ان کے نعتیہ کلام میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
دنیا کی آرزو ہے نہ نمود کی طلب ہے
مرا نام ہے ندامت، شرمندگی نسب ہے
چھپاتا کس طرح چہرہ گنہ آلود ہاتھوں سے
بڑا احسان ہے مجھ پر مرے اشکِ ندامت کا
سرکارِ دوعالم ﷺ کی نعت کا تخلیقی اور اعتقادی سفر جاری ہے اور قیام حشر کے بعد بھی جاری رہے گا۔ قیامت کا دن شافع محشر ﷺ ، ساقی کوثر ﷺ حضور رحمت عالم ﷺ کی عظمتوں اور رفعتوں کے ظہور کا دن ہے۔ مالکِ روز جزا اپنے محبوب رسول ﷺ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ سورج سوا نیزے پر آگ برسا رہا ہوگا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول اپنی امتوں کے ہمراہ تاجدارِ کائنات ﷺ کے خیمۂ عافیت کی تلاش میں نکلیں گے۔ حاضرِ خدمت ہوکر عرض گزاریں گے کہ یا رسول اللہ، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جلد حساب کتاب شروع ہونے کی دعا فرمائیے، روز محشر سب سے پہلے حضور ﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ سب سے پہلے حضور ﷺ جنت میں داخل ہوں گے۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ خلد بریں کی فضائیں خلدِ مدینہ کی خوشبوؤں سے مہک رہی ہوں گی، میثاق ایک محفل میلاد ہی تو ہے۔ اس پس منظر میں صاحبِ مطافِ نعت کا یہ قطعہ ملاحظہ فرمائیے۔
ہر لب پہ ہے ستایش عظمت حضور ﷺ کی
اللہ کا کلام ہے سیرت حضور ﷺ کی
ہوتی رہے گی قبر میں مشقِ سخن عزیزؔ
محشر میں ہوگی محفلِ مدحت حضور ﷺ کی
قبر میںمشقِ سخن کی آرزو بھی ایک تخلیقی عمل ہے۔ اپنے مجموعہ نعت کے لئے مطافِ نعت جیسی ترکیب بھی اسی تخلیقی عمل کا ایک حصہ ہے، قلم وابستگی کے نور میں ڈوبا ہوا ہے اور خوشبوئیں طواف قلم میں مصروف ہیں، والہانہ پن کی خوبصورت مثال:
اک بندۂ حقیر تھا میں معتبر ہوا
سرکارِ دو جہاں پہ سلام و درود سے
سر ہو در حبیب ﷺ پہ رکھا ہوا عزیزؔ
رشتہ نہ پھر رہے کوئی سر کا وجود سے
میری اوقات کیا پوچھتے ہو میں ہوں خاشاکِ دنیا کا سایہ
مجھ کو بوسے دیئے قدسیوں نے میں مدینے گیا اور آیا
گزشتہ صدی بھی توصیفِ مصطفی کی صدی تھی، اکیسویں صدی بھی نعت حضور ﷺ کی صدی ہے، آنے والی ہر ساعت حضور ﷺ کی نعت کا پرچم اٹھائے ہوئے ہوگی۔ کائنات کی لا محدود وسعتیں رسولِ اول و آخر ﷺ کے تذکار سے زرفشاں ہونگی۔ پھولوں کی بارش ہو رہی ہوگی اور ان پھولوں میں ’’مطافِ نعت‘‘ کے پھول بھی شامل ہوں گے:
نعت شانِ مصطفی کے حسن کا ادراک ہے
نعت ہے اُنؐ کے درِ اقدس کو جاکر چومنا
شیخ عبدالعزیز دباغ کی نعت ندرتِ فکر اور مضمون آفرینی کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔ ’’مطافِ نعت‘‘ خوبصورت اور دلاآویز اشعار کا مرقع ہے، شاعر کے آنسو لفظ لفظ میں فروزاں ہیں۔ الفاظ کا در وبست یوں ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ، ’’مطافِ نعت‘‘ کا قاری قلم کی جولانیوں اور اظہار کی روانیوں میں کھو جاتا ہے۔ اندازِ فکر جداگانہ، طرزِ بیان دلکش، اسلوب منفرد، ابہام و گنجلک پن کا نام و نشان نہیں، بلاغت اور فصاحت کی کہکشاں دور دور تک معانی کی ترسیل میں مصروف، تفہیم کی چاندنی کا رقصِ مسلسل اپنی مثال آپ، عجز کی چادر اوڑھ کر شاعر خود حرفِ سپاس بن جاتا ہے، حرفِ دعا اس کے ہونٹوں پر پھول بن کر کھل اٹھتے ہیں۔ یاسیت کے پس منظر میں رجائیت کا سورج پورے وقار اور تمکنت سے طلوع ہوتا ہے۔ عظمت رفتہ کی بازیابی کی ترغیب ملتی ہے، وہ عظمتِ رفتہ جس کی تلاش میں صدیوں سے کاروانِ شوق راہِ عشق پر رواں دواں ہے۔ آشوبِ عصر شیخ عبدالعزیز دباغ کی نعتیہ شاعری میں کربِ مسلسل کی صورت میں جلوہ گر ہے۔
چمن میں ہر کلی پر حبس کے موسم کا پہرا ہے
اندھیرے چھائے ہیں ہر سو اغثنی یا رسول اللہ
ہوائے نفس کی خاطر یہ ایماں بیچ دیتے ہیں
یہ قرآں بیچ دیتے ہیں، دہائی یا رسول اللہؐ
تمازت، نفسا نفسی، بے حسی، اک حشر برپا ہے
غلاموں کے سروں پر کالی کملی یا رسول اللہ
الحاد و کفر پھر نئی صف بندیوں میں ہیں
بے کس ہے بے نوا ہے مسلمان یا نبی
شیخ عبدالعزیز دباغ کے شعری وژن میں اپنے عہد کی دانش نمو پذیر ہے۔ عصری شعور سے آشوبِ عصر تک جذبوں کی ان گنت کہکشائیں روشنیاں بکھیرنے پر مامور ہیں۔ مضامینِ نو کا تنوع ان کی نعتیہ شاعری کو انفرادیت کا رنگ دیتا ہے۔ یقینا یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ تسخیرِ کائنات کے ساتھ تسخیرِ قلوب کا عمل بھی جاری ہے زنگ آلود لمحوں کا دامن شفاف آئنوں سے مزین کیا جا رہا ہے۔ تازہ ہوائیں مقفل دروازوں پر دستک دیں تو کواڑ خود بخود کھلنے لگتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ عمل تواتر سے جاری ہے۔افکارِ تازہ کی نمود کا منظر کیا سہانا منظر ہے، شاعر کی سوچ آفاقی سچائیوں سے ہمکنار ہوکر احساسات و محسوسات کی الگ دنیا آباد کرنے کی آرزو مند ہے۔ آپ جدید طرز احساس کے شاعر ہیں۔ ’’مطافِ نعت‘‘ اس احساس کا وہ آئینہ ہے جس کا ہر عکس درِ مصطفی سے روشنی کی بھیک مانگتا دکھائی دیتا ہے۔ سرکار ﷺ کی یادوں میں بھیگنے کا عمل ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں رکتا۔
وہاں جنت کی نہروں میں یہی تو بہہ رہا ہوگا
جو ملتا ہے غلاموں کو سکوں جاکر مدینے میں
مدینے کی ہوائیں دل کے تالے توڑ دیتی ہیں
تمنا ہے ہوا بن کر چلوں جاکر مدینے میں
میں جب بھی آنکھ کھولوں گنبد خضرا نظر آئے
کبوتر روح کا بن کر اڑوں جاکر مدینے میں
لگیں میرے تنے پر بھی کھجوریں یا رسول اللہ
میں مدحت کی کھجوریں بانٹ دوں جاکر مدینے میں
عہد رسالت مآب ﷺ میں شعرائے دربارِ رسول ﷺ ، حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت کعب بن زہیرؓنے نعتِ رسول سے دفاعِ رسول ﷺ کا کام بھی لیا تھا۔ کفار و مشرکین کے شعرا کی ہرزہ سرائیوں کے جواب میں شعرائے رسول نے علمی و ادبی حوالے سے ان کا جواب دیا تھا کیونکہ دفاع رسول ﷺ ہی دفاع اسلام ہے آج اکیسویں صدی کا نعت گو بھی نعت کے اس روشن پہلو کو نظر انداز کرنے کی جسارت نہیں کرسکا۔ یہ رنگ استغاثے کی صورت میں مزید نمایاں ہوا ہے۔
فروغِ عہدِ رسالت کا اہتمام کرو
کہ رات ظلم کی اتری ہوئی وطن میں ہے
نکل نہ آئے کہیں آفتاب مغرب سے
کہ کاررواں تو ابھی راہِ پر فتن میں ہے
صبا مدینے سے آئی ہے روشنی لے کر
چراغِ دل کو صبا آشنا کرو اب بھی
حضور آپؐ کی امت کے کارواں کی خیر
کہ راہزن ہیں نہاں بن کے راہرو اب بھی
فصیلِ شہر پہ لکھا ہے گرچہ کل کا عذاب
درِ نجات کھلا ہے ستمگرو اب بھی
’’مطافِ نعت‘‘ کے شاعر نے خوبصورت استعارے، تشبیہات،تلمیحات اور علامتوںسے اپنے شعری وژن کو پرکشش اور جاذب نظر بنایا ہے، نئی نئی تراکیب دامن دل کو کھینچتی ہیں۔
شہدِ ثناء کا میرے دہن میں وہ نور ہو
جو نطقِ جبرئیل تھا قدمینِ پاک میں
یادِ درِ حبیب کا احرام باندھ کر
ذوقِ سخن ثناء کی سعی میں لگا رہا
زرِ ثنائے نبی کاسۂ سخن میں ہے
نزولِ آیۂ صد انبساط فن میں ہے
یہ کوئی درد نہیں، لہر جو بدن میں ہے
کہ ُان کی یاد کا جھونکا مرے چمن میں ہے
ہیں ذرے ذرے میں روشن دیئے مشقّت کے
تھکن کی لَو سے چراغاں حریمِ تن میں ہے
درِ نبیؐ پہ حضوری کو نعت کہتے ہیں
جو بے حضور ہو، اہلِ نظر نہیں ہوتا
نبیؐ کی یاد میں اک کیفِ بیخودی ہے نعت
جو بے خبر نہ ہو اہلِ خبر نہیں ہوتا
درِ نبیؐ پہ ندامت کو نعت کہتے ہیں
جو شرمسار نہ ہو درگذر نہیں ہوتا
عطائے جنت ماویٰ ہے انتہائے کرم
غلام کے لئے محبوب ﷺ کی گلی ہے بہت
ہر ایک شخص مدینے میں ہنس کے ملتا ہے
وہاں کی آب و ہوا میں شگفتگی ہے بہت
کہ اس سے جلتے رہیں یادِ مصطفی کے چراغ
مرے لئے میرے اشکوں کی یہ جھڑی ہے بہت
پاکستان خطہ ’’لا الہ‘‘ ہے، قریۂ عشق محمد ﷺ ہے، آج ارضِ پاک اغیار کی چیرہ دستیوں کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ برف پوش پہاڑوں پر آگ برس رہی ہے، دریاؤں میں تشنگی بہہ رہی ہے، چشمے اپنا ہی خون اگل رہے ہیں، مساجد کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے۔ بے گناہ لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں، وطن عزیز اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ شاعر دل برداشتہ ہوکر پکار اٹھتا ہے۔
ناحق لہو سے تر ہے قبائے وطن حضور ﷺ
نگہِ کرم، حصارِ حفاظت عطا کریں
سارے چراغ بجھ گئے، بے نور ہے وطن
آقا! جہانِ نور کی طلعت عطا کریں
ملت کے نوجوان پریشان ہیں بہت
مولا انہیں یقین کی قوت عطا کریں
مولیٰ! وطن کی آبرو شعلوں کی زد میں ہے
نگہِ کرم کہ ساعتِ ابتر قریب ہے
اے دستِ غیب! وحدتِ ملت ترے سپرد
ظالم کا ہاتھ رگ پہ ہے نشتر قریب ہے
حضور ﷺ ہمارے مادیٰ وملجا ہیں، شفقت اور محبت کا پیکر ہیں، عفو و درگزر آپ ﷺ کی فطرتِ عالیہ کا ایک دلآویز پہلو ہے۔ ازل سے ابد تک سارے زمانوں اور سارے جہانوں کے آقا ﷺ ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ﷺ کے امتی اپنے ذاتی مسائل حضور ﷺ کی بارگاہِ بیکس پناہ میں پیش کر کے چشمِ کرم کے ملتجی نہ ہوں، حضور ﷺ سے اپنے ذاتی دکھوں کا مداوانہ چاہیں، اس لئے کہ ہم رسول ماضی کے نہیں رسول زندہ کے امتی ہیں اور بارگاہِ خداوندی میں بھی التجا کرتے ہیں کہ مولا! حضور ﷺ کے قدموں کی ساری خیرات ہماری جھولی میں ڈال دے، شیخ عبدالعزیز دباغ کی نعت میں ذاتی حوالہ مختلف انداز میں نمو پذیر ہوا ہے ’’حضور ﷺ نگہِ کرم‘‘ میں اپنی اہلیہ محترمہ کے ’’گوشۂ درود‘‘ کے بند ہوجانے کا المیہ بیان کرتے ہیں۔ ’’گوشہ درود‘‘ کے دوبارہ آباد ہونے کی التماس کرتے ہیں۔
حضور ﷺ پھر سے کھلے گوشۂ درود کا در
حضور ﷺ پھر سے لکھے جائیں نام پتوں پر
ایک دوسری نظم ’’حضور ﷺ آپ کی باندی فشارِ غم میں ہے‘‘ میں ’’گوشہ درود‘‘ کے حوالے سے آنسوؤں کے چراغ جلتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہے التماس کہ اس کو سکون مل جائے
وہ بے قرار ہے اس کو قرار مل جائے
برستی آنکھوں کو دیدارِ نور مل جائے
وفورِ شوقِ نبی ﷺ کو سرور مل جائے
ندائے کرب کو آوازِ طور مل جائے
پھر اس کو آپ ﷺ کی بزمِ درود مل جائے
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ نعت کائنات ہے اور ہم غلامان رسول ہاشمی کائناتِ نعت میں زندہ ہیں۔ اللہ جل شانہ کے بعد ہمارا ہر حوالہ حضور ﷺ سے شروع ہو کر حضور ﷺ پر ختم ہوجاتا ہے۔ ہمیں بزمِ درود میں سانس لینے کا لازوال اعزاز حاصل ہے اور ہم اپنے اس شرف پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے، ہم سنتِ ربِ جلیل پر چلنے والے غلامِ مصطفی ہیں۔ درود و نعت کا گلشن ہر لمحہ ہمارے ہونٹوں پر کھلا رہتا ہے، شاعر ’مطافِ نعت‘ کہتا ہے۔
ذکرِ نبی ﷺ کی اتری سماعت میں چاندنی
گلشن درود و نعت کا لب پر کھلا رہا
سرکار ﷺ ڈالتے رہے دامن میں رحمتیں
نادم خشوع و عجز میں در پر جھکا رہا
مصرعے مترنم لہروں کی طرح محوِ ثنا ہیں، بعض مصرعے تو ضرب المثل بنتے دکھائی دیتے ہیں، تزئینِ حرف و صوت کے تحفے بھی اسی درِ عطا سے ملتے ہیں۔ ذوقِ سخن ثنائے حضور ﷺ کی سعی میں مصروف رہتا ہے۔ درود و سلام کے گلاب کھلتے ہیں تو بادِ بہاری وجد میں آجاتی ہے، دل حضوری کے لئے مچل مچل جاتا ہے۔ آنسو ورق پر پھیل کر حرفِ التجا بن جاتے ہیں۔
مرے پاس ہوتا قلم اگر تو مَیں لکھتا آقا کی مدحتیں
مرے حرف میں نہیں وسعتیں مری صوت محرمِ غم نہیں
کہاں شاعری کی لطافتیں، کہاں استعارے رعائتیں
جو مطافِ شعر میں ہو رواں، وہ ہجومِ بیت الحرم نہیں
ہو قیامِ نعت حطیم میں، کِھلے لب پہ مدحت کی چاندنی
میں رہوں ہمیشہ طواف میں مگر ایسے میرے قدم نہیں
مجھے نعت لکھنی ہے آپؐ کی، مرے پیارے آقاؐ، مرے نبیؐ!
مجھے دیں وہ لفظوں کا بانکپن جو قلم میں ہے، وہ قلم نہیں
ارشادِ خداوندی ہے اے محبوب ﷺ اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو نہ یہ زمین ہوتی نہ آسمان، نہ چاند ہوتا نہ ستارے۔ گویا کائنات کی ہر چیز حضور ﷺ کے قدموں کا صدقہ ہے۔ شیخ عبدالعزیز دباغ کی نعت اسی مرکزی نقطے کی شعری تفسیر ہے۔ یہ حیاتِ چند روزہ بھی حضور ﷺ کے قدموں کا صدقہ ہے، ہماری دوستی ہماری دشمنی سب کی بنیاد حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ کیا خوبصورت شعر ہے:
میری کسی سے کوئی عداوت نہیں مگر
میرے تعلقات کی بنیاد ہیں نبی ﷺ
مزید اشعار ملاحظہ فرمائیے اور غزل کی خوبصورتیوں کو درِ اقدس پر دامن پھیلائے دیکھئے۔
نعت کی رت میں شرابور فضا لگتی ہے
خوب برسے گی مدینے کی گھٹا لگتی ہے
ہے مجھے شام ڈھلے آپ ﷺ کے در کی خواہش
قبر کی رات شبِ بزمِ ثنا لگتی ہے
اس سے آنکھوں میں امڈ آتے ہیں ساون بھادوں
یادِ عصیاں مجھے پچھم کی ہوا لگتی ہے
درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں ازل ہی سے آقائے محتشم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں عرض پرداز ہیں، مشامِ جاں ازل ہی سے حرفِ ثنائے سرمدی کے پھول کی خوشبو سے معطر ہے، ہوائیں ازل ہی سے جھک کر آقا حضور ﷺ کے دربار پر نور میں سلامِ شوق پیش کر رہی ہیں۔ ہر روز مواجۂ اقدس میں کتنے ہی خوش نصیب حاضرین خلعت فاخرہ سے سرفراز ہوتے ہیں اور آقائے نامدار ﷺ کی خدمتِ اقدس میں ہدیہ درود و سلام پیش کرتے ہیں، فرشتے قطار اندر قطار صبح و شام آسمانوں سے اترتے ہیں۔ درودوں اور سلاموں کے سدا بہار پھولوں سے مضافات مدینہ ہی نہیں کائنات کا گوشہ گوشہ مہکنے لگتا ہے۔ صاحبِ ’’مطافِ نعت ‘‘ نے بھی اپنے اشکوں کو حروفِ سلام میں منتقل کیا ہے۔ جذبوں کی رعنائی لفظ لفظ میں رقصاں ہے، ان کا قاری بھی کیف و سرور کی فضاؤں میں گم ہوجاتا ہے۔
سب ہیں تجلیات کا پرتو لئے ہوئے
شہر نبیؐ کے سب در و دیوار کو سلام
خلوت گہِ رسولؐ وہ بعثت گہِ نبیؐ
انوارِ مصطفیٰؐ کے امیں غار کو سلام
آنکھیں خنک مناظرِ خضرا سے تر رہیں
کرتی رہیں حضور ﷺ کے دربار کو سلام
یہود و نصاریٰ، آج بھی اسلام اور صاحبِ اسلام کے خلاف گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہیں۔ نام نہاد علمی تحقیق کی آڑ میں فکری مغالطوں اور علمی بد دیانتیوں کے خوف تخلیق کئے جا رہے ہیں۔ قرطاس و قلم کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ طائف کے اوباش لڑکوں کے شیطانی قہقہوں کی بازگشت کبھی گستاخانہ خاکوں کے روپ میں سنائی دیتی ہے، کبھی گستاخانہ فلم کی صورت میں سماعتوں میں زہر گھولتی نظر آتی ہے۔ نائن الیون کے بعد تو مخالفانہ پروپیگنڈے کا ہدف صرف اسلامیان عالم کو ٹھہرایا گیا۔ لفظ مسلمان کو دہشت گردی کے مترادفات میں شامل کر کے ان استحصالی اور طاغوتی طاقتوں نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کیا۔ گویا اپنی روشن خیالی پر اپنے اندر کی کالک مل لی، شیخ عبدالعزیز دباغ نے ان فکری مغالطوں،علمی لغزشوں اور ابلیسی سازشوں پر مطافِ نعت میں شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسلامیانِ عالم کی بے حسی پر صف ماتم بچھاتے ہیں۔ قرطاس و قلم خون کے آنسوؤں میں ڈوب جاتے ہیں۔
آج کے بو لہب کے بھی ہاتھ ٹوٹیں یا خدا
آج بھی بو لہب پر شعلے گریں شام و سحر
ابرہا نکلا ہے بن کے آج گستاخ رسول
آج بھی ان پر ابابیلیں اڑیں شام و سحر
آج بھی ابنِ ابیٔ پر قہر ٹوٹے رات دن
اس کی پھر تذلیل کے دوزخ جلیں شام و سحر
’’مطافِ نعت‘‘ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں نعتیہ ادب میں ایک گرانقدر اضافہ ہے شاعر نے انفرادی دکھوں کے ساتھ اجتماعی محرومیوں کو بھی نعتِ حضور ﷺ کا حصہ بنایا ہے اور تمام تر جمالیاتی قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے ہمیشہ زندہ رہنے والے اشعار تخلیق کئے ہیں۔ فکری اور نظری توانائیوں کی ایک کہکشاں قرطاس و قلم کے طواف میں مصروف ہے۔ یہ لہجہ اس صدی کا توانا لہجہ ہے۔ کائناتی سچائیوں، آفاقی صداقتوں اور زمینی حقیقتوں کا مظہر ہے۔ شیخ عبدالعزیز دباغ نے سوچ اور اظہار کے نئے امکانات کی نشاندہی کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ حرفِ پذیرائی اس نئے لہجے کا مقدر بنے گا۔ شاعر کے اس التجائیہ شعر پر آمین کہتے ہوئے اپنی گزارشات کو سمیٹتا ہوں۔
گناہگار ہوں اور لغزشوں پہ نادم ہوں
غمِ رضائے نبیؐ سے فگار رہتا ہوں
ہے آرزو کہ بٹھا لیں وہ اپنے قدموں میں
یہ التجا سرِ مژگاں سجائے رکھتا ہوں
شہر اقبال
11 دسمبر 1912
ریاض حسین چودھری