آبِ گریزاں- نعت کے تخلیقی زاویے
محمد اقبال منہاس
(محمد اقبال منہاس ریاض حسین چودھریؒ کے زمانۂ طالب علمی کے بہت قریبی دوست تھے۔ مرے کالج سیالکوٹ کے کالج میگزین کے انگلش سیکشن کے ایڈیٹر تھے جب کہ ریاض اردو سیکشن کے مدیر تھے۔ دونوں شاعر تھے اور زمانۂ طالب علمی کے بعد بھی ادبی سرگرمیوں میں برابر شریک رہے۔ محمد اقبال منہاس پھر بیرونِ ملک چلے گئے اور درس و تدریس سے منسلک رہے۔ عین عالم شباب میں ان کی وفات کا غم آج بھی ان کے حلقۂ احباب میں محسوس کیا جاتا ہے۔ ’’آب گریزاں‘‘ ان کا شعری مجموعہ ان کی وفات کے سالوں بعد شائع ہوا جس کا سرورق ریاض حسین چودھریؒ نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل جنوری 2017 میں تحریر کیا۔)
’’رعنائیِ خیال ہاتھ باندھے اقبال منہاس کے درِ تخلیق پر رہتی، خوشبو ان کے دامنِ خیال میں چراغ جلاتی اور نئے موسموں کی نرماہٹ ان کی دنیائے فکر و فن میں رتجگے بناتی۔ قلم اٹھاتے تو پھول جھڑنے لگتے، لب کشا ہوتے تو چاندنی بکھرنے لگتی۔ ورق ورق پر ستاروں کے جھرمٹ اترتے دکھائی دیتے، شعر تو شعر ان کی نثر بھی شعریت کے اَطْلس و کمخواب میں لپٹی ہوئی ہوتی۔ تنقید کو بھی تخلیق بنا دیتے۔ بلاشبہ اقبال منہاس کا جہانِ شعر رنگوں، روشنیوں اور خوشبوؤں کا ایک بلیغ استعارہ ہے۔ تفہیم کے مقفل دروازوں کو کھلنے میں دیر نہیں لگتی۔ علامتوں کی ایک نئی دنیا ان کے ہاں آباد نظر آتی ہے۔ کومل جذبے اور سندر آرزوؤں کے قافلے مرحلہ تخلیق سے بادِ صباکے خوشگوار، جھونکوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ جدید طرزِ احساس کی کرنیں ان کے اندر سے پھوٹتی ہیں کہ داخل کے ساتھ خارج بھی جگمگانے لگتا ہے۔ لاشعور ہی نہیں ان کا شعور بھی مسلسل جاگتا رہتا ہے۔ اُن کا قلم کبھی ضعف کا شکار نہیں ہوا۔
چل دیئے تم بھی مجھے چھوڑ کے تنہا آخر
ساتھ چلتے تو نئی رسم کے بانی ہوتے
اقبال منہاس نے نظم و نثر دونوں میں فرسودگی اور قنوطیت سے اعلانِ بغاوت کیا۔ گھسی پٹی راہوں پر چلنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس لئے کہ ایک سچا فنکار اپنی راہیں خود ہی تلاش کر لیتا ہے۔ 1961-62-63 مرے کالج سیالکوٹ کی ادبی فضا، اقبال منہاس اور خواجہ اعجاز احمد بٹ کے دم قدم سے ایک تحریک کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ میں ان دنوں مرے کالج میگزین کے اردو سیکشن کا ایڈیٹر تھا۔
اقبال منہاس سوچ اور اظہار کے نئے دروازوں پر دستک دیتے ہیں لیکن روایت سے کلیتاً کنارہ کشی اختیار نہیں کرتے۔ ان کی جڑیں اپنی مٹی میں پیوست ہیں۔ اور ان کا فن اسی مٹی سے تخلیقی توانائی حاصل کرتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغاز کا تخلیقی سطح پر اعتراف کرتے ہیں۔ اقبال منہاس کسی سطح پر بھی منحرف چہروں کے تاریک جنگل کا حصہ نہیں بنے۔
بیسیویں صدی کی ساتویں دھائی میں جو نئی آوازیں کاروانِ اہلِ قلم میں شامل ہوئیں ان میں اقبال منہاس کی توانا آواز اپنے دلکش اسلوب کے کئی حوالوں سے انفرادیت کا پہلو لئے ہوئے تھی۔ آپ شہرِ تخلیق میں ہوائے تازہ کے خنک جھونکوں کے مانند داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اربابِ علم و فن کی نگاہوں کا مرکز بن گئے۔ زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔ رنگوں، خوشبوؤں اور روشنیوں کو سوگوار چھوڑ کر اس مٹی کا کفن اوڑھ لیا جس مٹی کی خوشبو نے ان کے قلم کو رعنائی عطا کی تھی۔ اقبال منہاس دلکش اور خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ اپنائیت کے دیے ان کی آنکھوں میں روشن تھے، دوستی نبھانا جانتے تھے۔ دلوں کو مسخر کرنے کے ہنر سے واقف تھے، خلوص کی چاندنی ان کے چہرے پر مسکراتی رہتی۔ میں نے انہیں کبھی غصے کی حالت میں نہ دیکھا۔ اکتاہٹ اور بیزاری کا نام ان کی لُغتِ عمل میں شامل ہی نہ تھا۔ آج جبکہ ان کے شعری مجموعے آبِ گریزاں کا فلیپ لکھ رہا ہوں میری آنکھیں ہی نہیں میرا قلم بھی اشکبار ہے۔‘‘
ریاض حسین چودھری
جنوری، 2017ء