اک کیف ہے عجیب سا میری دعاؤں میں- زر معتبر (1995)
اِک کیف ہے عجیب سَا میری دُعاؤں میں
لرزش سی پا رہا ہُوں مَیں اپنی صداؤں میں
سرکاؐر کی نوازشِ پیہم ہے میرے سَاتھ
تنہا کہاں ہُوں شہرِ نبیؐ کی ہواؤں میں
سردارِ کائنات کے قدموں میں بیٹھ کر
دولت یقیں کی آگئی ہے التجاؤں میں
مَیں کون ہُوں، کہاں سے ہُوں آیا، خبر نہیں
گُم صُم کھڑا ہُوں اُنؐ کے کرم کی رداؤں میں
ہر شاخِ آرزُو پہ عطا کے کھِلے گلاب
شاداب ساعتوں کی چمک ہے گھٹاؤں میں
ہر لفظ بے جواز تھا لوحِ شعور پر
سوز و گداز تھا کہاں پہلے نواؤں میں
جیسے قدم زمین پر پڑتے نہیں مِرے
جیسے میں اُڑ رہا ہُوں ازل سے خلاؤں میں
رحمت کے بٹ رہے ہیں کٹورے قدم قدم
شامل ہُوں آج میں بھی نبیؐ کے گداؤں مَیں
ہر سمت رنگ و نور کی بارش کی رِم جھمیں
ابرِ سکوں سا چھایا ہُوا ہَے فضاؤں میں
پھر اُٹھ سکوں نہ شہرِ پیمبرؐ کی خاک سے
کانٹا چبھے، خُدا کرے وہ میرے پاؤں میں
اب حشر تک ریاضؔ تمازت کارڈر نہیں
بیٹھا ہوا ہوں گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں