نیاز- نعت کے تخلیقی زاویے
مجموعہ نعت محمد حنیف نازش قادری
تقدیم
(محمد حنیف نازش کی نعتیہ شاعری؛ پیراگراف کی سرخیاں مرتّب نے لگائی ہیں۔)
نعت گوئی قدیم اور عظیم ہے
بلاشبہ نعت گوئی کی تاریخ تخلیق ارض و سماوات کی تاریخ سے بھی قدیم اور عظیم ہے اس لیے کہ نورِ محمدی کی تخلیق کے ساتھ ہی ثنائے رسول کون و مکان کے چراغ روشن ہوگئے تھے۔ محبوب ﷺ ! اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ آسمان ہوتا نہ یہ زمین ہوتی، سورج ہوتا نہ چاند، نہ گلستانوں میں کلیاں چٹکتیں اور نہ شاخوں پر پھول مہکتے، خوشبو کی ہتھیلیوں پر چراغ جلتے اور نہ صبا گلشن ہستی میں رتجگے مناتی۔ نہ گھٹائوں کو بنجر زمینوں کی طرف اذنِ سفر ملتا اور نہ دھنک کو سات رنگوں کی مشعل عطا ہوتی، فضا پرندوں سے رنگین ہوتی اور نہ جگنو اور تتلیاں پرفشاں ہوتیں، آبشاروں کا ترنم وجود میں آتا اور نہ خنک پانیوں کے چشمے رواں ہوتے، زمین پر شاداب ساعتیں اترتیں اور نہ موسموں کو ردائے سبز ملتی، نہ جنت تخلیق ہوتی اور نہ آدم علیہ السلام کو لباس بشریت سے نوازا جاتا۔ محبوب ﷺ ! یہ سب روشنیاں، یہ تمام رنگ تیرے نقوش پا کو چومنے کے لیے تخلیق ہوئے۔ محبوب ﷺ ! کائنات کا سارا حسن تیرے قدموں کی خیرات ہے، تیرے نور کی تخلیق ہی اس وسیع و عریض کائنات کی تخلیق کا جواز فراہم کرتی ہے۔ اس مضمون پر محمد حنیف نازشـؔ کا ایک شعر ہے۔
خاک دانِ عالمِ ارضی بسا قرنوں کے بعد
گھر محلے بستیاں دیوار و در کچھ بھی نہ تھا
درود وسلام اللہ کی سنت اور نعت اُس کی توفیق ہے
نبی آخرالزماں پر خدائے وحدہٗ لاشریک خود درود بھیجتا ہے، اس کے ملائکہ بھی اس عملِ دلنواز میں اپنے رب کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ ہدایت آسمانی کی آخری دستاویز میں حکم خداوندی ہے کہ اے ایمان والو! تم بھی حضور ﷺ پر خوب درود و سلام بھیجا کرو۔ نعت کی اساس یہی درود و سلام ہے، درود و سلام کے پیکر شعری کا نام نعت ہے اور نعت گوئی کا یہ اعزاز توفیق خداوندی کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ بقول حنیف نازشـؔ
نبیؐ کی نعت سراسر خدا کی ہے توفیق
نہ یہ ہنر ہے نہ مشقِ سخن نہ فن کا ریاض
جدید اردو نعت
تحریکِ پاکستان اسلامی تشخص کی تلاش کا دوسرا نام ہے، قیام پاکستان کے بعد نعت کی ترویج اور اس کے فروغ کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کام ہوا وہ دو قومی نظریے کی عملی تفسیر ہی نہیں اس کی جمالیاتی توجیہہ کا بھی مظہر ہے۔ حفیظ جالندھری سے حفیظ تائب تک محبتِ رسول ﷺ کی ایک سرمدی دنیا آباد ہے،یہ الگ بات ہے کہ بازارِ سیاست کے گند نے ہر روشن چہرے کو اس قدر دھندلا کے رکھ دیا ہے کہ اسلامی تشخص کا سفر بھی ادھورا رہ گیا ہے۔ اگرچہ تحریکِ پاکستان کے حقیقی مقاصد نظروں سے اوجھل کردیئے گئے ہیں اور ہم اپنے مفادات کے قیدی ہوکر رہ گئے ہیں تاہم نعت کا سفرجاری رہا ہے بلکہ نعت کا منظر نامہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ جدید اردو نعت ہیئت کی تبدیلیوں کے ساتھ فکرو نظر کی انقلابی تبدیلیوں سے بھی آشنا ہوئی ہے چنانچہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں تخلیق ہونے والی نعت اس صدی کی پہلی دہائی میں تخلیق ہونے والی نعت سے کئی حوالوں سے مختلف ہے۔ مولانا احمد رضا اور مولانا الطاف حسین حالی تک اور پھر علامہ اقبالؒ سے احمد ندیم قاسمی تک نعت فنی اور فکری ارتقاء کے ان گنت مراحل سے گزری۔ اکیسویں صدی کو جو فکری اور ثقافتی وراثت منتقل ہوئی اس میں نعت کے باطن سے پھوٹنے والی روشنی کا انمول اثاثہ بھی شامل ہے۔ نعت کے وہ شعراء جنہوں نے بیسویں صدی کے اواخر میں مدحت رسول ﷺ کے چراغ روشن کرنے کا اعزاز حاصل کیا اور جو اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں بھی توصیف مصطفی ﷺ کا پرچم فضائوں میں بلند کرنے والے قافلۂ عشاق میں پیش پیش ہیں،اُن میں محمد حنیف نازش قادری کا نام بھی اعتبار و اعتماد کے آفاق پر روزِ روشن کی طرح درخشندہ ہے۔ ’’سخن، سخن خوشبو‘‘ اور ’’آبرو‘‘ کے بعد ’’نیاز‘‘ ان کے سفر تخلیق کا تیسرا پڑائو ہے۔
محمد حنیف نازش کا اسلوب
آپ مشکل پسندی کے کوچے کی طرف نہیں آئے۔ ان کی نعت سادگی کے حسن کی ایک دلکش مثال ہے۔ کسی ذہنی الجھائو کا شکار نہیں ہوئے۔ فلسفیانہ موشگافیوں سے صاف دامن بچاتے ہیں۔رمز و کنایہ کا حسن اثر آفرینی کی جملہ رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے لیکن آپ شعوری طور پر نہ علامتی رنگ اپناتے ہیں اور نہ ابہام گوئی کا بے مقصد رویہ اختیارکرتے ہیں۔ بے ساختہ پن، روانی اور سلاست ان کے شعری آہنگ کی آبرو ہے۔ کہیں بھی تصنع یا بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ شاعری بذاتِ خود مغلوب و مقصود نہیں بلکہ شاعری ذریعہ ہے۔ حضور ﷺ کی محبت کے اظہار میں ابہام اور گنجلک پن کا کہیں بھی شائبہ نہیں پڑنے پایا۔ کچھ اشعارملاحظہ فرمائیں۔
نقش پا آپؐ کا آنگن میں سجا رکھا ہے
اس لیے رہتا ہے شب بھر مرا آنگن روشن
حدیثِ قدسیِ لولاک صاف کہتی ہے
تمام عالمِ امکاں کا ہیں وہی حاصل
مجھ پہ نازشؔ میرے آقاؐ کا کرم ایسے ہوا
بے تکلف نعت کہہ دی جب بھی فرمائش ہوئی
لفظ محمدؐ کی شیرینی کیا کہیے
شہد سے بھی لگتا ہے میٹھا اُن کا نام
نازش اپنے پاس تو کچھ بھی نہ تھا یوم حساب
نعت کے فیضان سے بخشش کا ساماں ہوگیا
خلق سے ان کے منور ہے جہاں
ہر طرف ہے روشنی ہی روشنی
محمد حنیف نازشؔ قادری قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ محض تخیل کی بلند پروازی کا سہارا نہیں لیتے۔ حقائق کا ادراک ان کے شعر کے باطن کو روشن رکھتا ہے۔ قرآن کا ورق ورق محامد ومحاسن مصطفی ﷺ کے نور سے منور ہے۔ قرآن کو نعت مسلسل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خود خالق کائنات اپنے بندوں کو آدابِ مصطفی بجا لانے کا شعور عطا کرتا ہے۔ نعت کے شعراء نے ہر دور میں یہ اعتراف بڑے فخر سے کیا ہے کہ انہوں نے نعت گوئی قرآن سے سیکھی ہے۔ نازش کہتے ہیں:
نعت لکھو تو رکھو سامنے اس کو نازشؔ
آپؐ کی نعت میں ہے سارے کا سارا قرآن
قرآن میں ملے نہ جسے نعت مصطفی
کہہ دوں میں اس کی آنکھ کو بینا، کبھی نہیں
شاعرِ ’’نیاز‘‘ نے اقلیمِ سخن میں اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی بھرپور اور کامیاب سعی کی ہے۔ دلکش ردیفوں اور خوبصورت قوافی نے ان کے دامن شعر کو رنگوں، روشنیوں اور خوشبوئوں سے بھر دیا ہے لیکن روایت کا تسلسل کہیں بھی ٹوٹنے نہیں پایا بلکہ روایت کا دامن چھوڑنا ان کے فنی مسلک میں سرے سے شامل ہی نہیں۔ روایت کے ساتھ وابستہ رہ کر نیا پن پیدا کرنا بڑی بات ہے۔ نازشؔ کے یہ شعر دیکھئے:
غور سے جب بھی دیکھوں ان کو سوچ مدینے جائے
کرتے ہیں یوں مجھ کو اشارے منظر، چہرے، پھول
حاضری کا بلاوا اب آئے گا کب، دید طیبہ کا پھر کب بنے گا سبب
کب ترے در پہ آئے گا منگتا ترا، صبر ہوتا نہیں چین آتا نہیں
وارفتگی کا یہ عالم ہے کہ اس شہر خنک کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ چشم تصور ہر لمحہ طوافِ گنبد خضرا میں مصروف رہتی ہے۔ درِ حضور ﷺ پر دستِ سوال دراز کرنے کی نوبت ہی کب آتی ہے۔ یہاں تو بن مانگے ملتا ہے، طلب سے بھی پہلے دامن طلب مرادوں سے بھر جاتا ہے۔ میرے حضور ﷺ عطا ہی عطا، سخا ہی سخا، درود اُن پر سلام اُن پر!
کرم کی بھیک یہیں سے ملی جسے بھی ملی
یہ بارگاہِ عطا ہے، یہ بارگاہِ کرم
پھول، خورشید، صبا، چاند، ستارے، شبنم
جس کو پایا درِ محبوبؐ کا منگتا پایا
آپؐ دے دیتے ہیں اظہارِ طلب سے پہلے
تشنہ رہنے نہیں دیتے ہیں تمنا کوئی
نعت کا سفر اندر کی روشنی کا سفر ہے۔ شاعرِ ’’نیاز‘‘ کے ہاتھوں میں بھی روشنی کا یہی پرچم ہے۔ مدحتِ مصطفی ﷺ کا اعزاز رب کائنات کے بندوں کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ شاعرِ حضور ﷺ حضور ﷺ کی ثنا گوئی کے حصول پر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں تشکر و امتنان کے جتنے بھی پھول نچھاور کرے اور اپنے بخت رسا کی جتنی بھی بلائیں لے کم ہے۔
درود اُن پہ پڑھو جتنا پڑھ سکو نازشؔ
کہ ہے یہ اُن کے یہاں ایک امتیاز کی بات
شگوفے نکلے تو اُن سے گلاب یوں بولا
سدا مہکتے رہو گے اگر درود پڑھو
حاجیو! آئو درودوں کی بنالیں ڈالی
آج کی رات مدینے میں بسر ہو شاید
نازش، درود پڑھتا رہا میں حضورؐ پر
جتنے بھی حادثات تھے رستہ بدل گئے
ان کے گلشنِ فکرو نظر میں موسمِ نعت اپنی جملہ شادابیوں اور رعنائیوں کے ساتھ پرفشاں دکھائی دیتا ہے۔ عندلیبِ گلشنِ نعت کی نغمہ سرائی شہرِ سخن کی آبرو ہے۔
قبر کی تنہائی میں جب آخری ہوگا سوال
یاد کی ہوگی تو نعتِ مصطفی کام آئے گی
جانتا ہوں اس کو نازش زادِ راہِ آخرت
داد کی صورت میں جو نعتوں کا نذرانہ ملا
میرے اک اک شعر سے کیسے نہ پھوٹے روشنی
زینت دِیواں ہوا محبوبؐ کا ذکرِ جمیل
نازشؔ اُن کی چشم رحمت کے طفیل
رنگِ مدحت ہے جداگانہ مِرا
اے کاش ملائک یہ کہیں مجھ سے سر حشر
نازشؔ! تجھے آقاؐ نے کہا ہے کہ سنا نعت
غیر کیا دیں گے کہ غیروں کا قصیدہ لکھئے
نعت کہیے تو پیمبرؐ سے ردا ملتی ہے
گلشن زیست کا ہر پھول ہے وقفِ مدحت
اور ایک ایک کلی محوِ ثنا ملتی ہے
مدحتِ محبوبؐ لکھی تو چمک اٹھے حروف
صفحۂ قرطاس پر گویا چراغاں ہوگیا
نازش کے نعتیہ مضامین کی بنیادیں
درودوں کے چراغ لے کر لحد میں اترنے کاآرزو مند شاعرِ رسول ﷺ ہر حوالے سے پراعتماد ہے۔ اس تیقّن کے دیئے اس کی دونوں ہتھیلیوں پر جگمگا رہے ہیں کہ درودِ پاک کی بدولت میرا مدفن حشر تک سروِ چراغاں کا منظر پیش کرتا رہے گا، دنیا میں بھی اجالے میرا مقدر ہیں اور عقبیٰ میں بھی کہکشائیں میرے راستوں کو منور کریں گی۔ اپنے نبی ﷺ کے قدموں پر دیوانہ وار اپنی جان نچھاور کرنے والا یہ امتی، ستاروں سے روشن سیرت و کردار کے مالک جاں نثارانِ رسول ﷺ کے نقوشِ قدم کو اپنی منزل قرار دیتا ہے اور ہر لمحہ جادۂ رحمت پر رواں دواں رہتا ہے۔ سوئے مدینہ اس کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ آرزوئے مدینہ کے چراغ اس کے سینے کے اندر ہمیشہ روشن رہتے ہیں۔
نازشؔ اُن سے مانگ لو کوئی کرن
ہے سوالی جن کے در کی روشنی
نامِ شفیعؐ امم کو چومنے کی سعادت ہر کسی کے مقدر میں کہاں، نازشؔ اپنے مقدر پر نازاں ہیں اور ’’نیاز‘‘ کے ورق ورق پر اپنے اس اعزاز لازوال کی چاندی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ ارضِ مدینہ پر گھر کی تمنا بھی شاعروں کے وجدان میں چراغ جلاتی ہے اور خوشبوئیں بکھیرتی ہے۔ کاسۂ دل تھام کر درِ اقدس پر سرتا قدم حرفِ سوال بننا یقینا سعادت کی بات ہے۔نازشؔ ہر لمحہ لطف پیمبر ﷺ کے آرزو مند رہتے ہیں۔ آقائے محتشم ﷺ کے نقوشِ کفِ پا کا احترام نازشؔ کے شعری سفر کی معراج ہے۔ تمنائے حضوری ہر وقت اُنہیں ثنائے حبیب ﷺ میں مصروف رکھتی ہے۔
نبیؐ کے ہو نعلین کا جس پہ نقشہ
وہ کاغذ خدا کی قسم چومتا ہوں
مانگو آقاؐ کے وسیلے سے خدا سے نازشؔ
میں نہیں مانتا یوں مانگو تو پھر کام نہ ہو
ہدایت آسمانی کی آخری دستاویز قرآن حکیم فرقان مجید میں خدائے وحدہٗ لا شریک نے اعلان فرما دیا کہ مجھ تک رسائی میرے محبوب ﷺ کے وسیلۂ جلیلہ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے، میرے نبی ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتے اور پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور حضور ﷺ بھی ان کی سفارش فرماتے تو وہ اللہ کو بخشنے اور رحم کرنے والا پاتے۔
فرمان خداوندی کی اس سرمدی روشنی میں آج کا شاعر نعت کے حوالے سے حمدِ خدا کے شعور کو اجاگر کرنے میں مصروف ہے۔ عرفانِ خدا عرفان مصطفی ﷺ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ہمیں تو خدا بھی حضور ﷺ کے وسیلہ جلیلہ ہی سے ملا ہے۔ آج کا شاعر بیاض نعت ہاتھ میں لیے بیاض حمد کے لیے تخلیقی عمل سے گزر رہا ہے۔ حمدیہ مشاعروں کے دلنواز سلسلے کا آغاز ہوچکا ہے۔ حمدیہ مجموعے بھی منظر عام پر آرہے ہیں۔ تخلیق نور محمدی ﷺ سے پہلے کا عہد بھی حمد خدا ہی کا عہد ہے اور روزِ جزا کے بعد کا عہد بھی حمد خدا ہی کا عہد ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے خالق کی ثنا بیان کررہا ہے۔ قرب قیامت سے پہلے خالق حقیقی تک رسائی کے ان گنت مقفل دروازے کھلیں گے اور اللہ کی بندگی کا ہر راستہ دہلیز مصطفی کو چوم کر نکلے گا کہ یہی منشائے خداوندی ہے اور یہی صراطِ مستقیم ہے کہ مجھ تک آنا ہے تو میرے محبوب ﷺ کا راستہ اپنائو۔ اُن کی تعلیمات پر عمل کرو، فلاح پائو گے۔ اُن کے قدموں کے نقوش کو مشعل راہ بنائو، منزلیں بڑھ کر تمہارے قدم چوم لیں گی۔ محمد حنیف نازشؔ قادری بھی اسی قرآنی اسلوب ہدایت سے اکتسابِ شعور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کہی ہے نعت بتوفیقِ ایزدی میں نے
لکھی ہے حمدِ خدا نعتِ مصطفی کے طفیل
دعا کرو کہ میں سیدھا مدینے جا پہنچوں
کروں وہاں سے میں نازشؔ خدا کے گھر کا سفر
نازشؔ کی نعت میں استغاثے کا رنگ بھی نمایاں ہے، امتِ بے نوا کی خستہ حالی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آج امت مسلمہ ابتلا و آزمائش کے دور سے گزر رہی ہے۔کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ عالم کفر عالم اسلام کے خلاف متحد ہورہا ہے لیکن ہم اپنے مفادات کے قیدی بنے اپنی ثقافتی اکائی کی بھی نفی کررہے ہیں۔ غیروں کے ہاتھوں میں تاش کے پتوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ صلیبی جنگوں کا آغاز ہوچکا ہے لیکن توحید کے فرزند نرگسیت کے حصار میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ رہ رہ کے نظریں افقِ مدینہ کی طرف اٹھ رہی ہیں لیکن گنبد خضریٰ سے غلامی کا رشتہ از سر نو استوار کیے بغیر ہم قعرِ مذلت کی اتھاہ گہرائیوں سے نہیں نکل سکتے۔ خوفِ خدا کو اپنے روز و شب کا عنوان بنائے بغیر ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ ردائے کرم کے لیے غلامیٔ رسولِ ہاشمی کے درِ رحمت پر کھڑے ہیں۔ فریاد لبوں پر سسک رہی ہے اور آنسوئوں کا قلزم بہہ رہا ہے۔ ان آنسوئوں میں محمد حنیف نازشؔ قادری کے آنسو بھی شامل ہیں۔
سرکارؐ حالِ امتِ عاصی پر اک نظر
منگتے ہیں کہہ رہے ہیں کہ آقا کرم کرم
نازشؔ کی نعت میں خودسپردگی کی کیفیت قاری کے دامنِ دل کو کھینچتی ہے اور وہ بھی اسی کیفیت سے سرشار ہوکر حضوری کی لذتوں سے ہمکنار ہونے لگتا ہے۔ قاری کو ساتھ لے کر چلنا کہ تخلیق کی خوشبو سے اس کا مشام جاں بھی معطر رہے۔ یقینا ایک غیر معمولی وصف ہے اور یہی وصف جمیل نازشؔ کی نعتیہ شاعری کا اساسی رویہ ہے:
ملے اب اذن حضوری کا، اے شہِؐ کونین
کہ ختم ہونے کو ہے عمرِ مختصر کا سفر
ممدوحِ ربِ کائنات کی ثنا کہاں اور کہاں ایک شاعر بے نوا کا قلم، ٹوٹے پھوٹے الفاظ سہمی ہوئی سوچیں، طائرِ تخیل دم بخود، ندامت کے آنسو اور کم مائیگی کا احساس۔ حضور ﷺ کا ذکر تو ان کے اللہ نے بلند کیا ہے۔ ہم غلامانِ تاجدار مدینہ ﷺ تو ثنائے رسول ﷺ کے حوالے سے محض اعتبار و اعتماد کی سند کے آرزو مند رہتے ہیں۔ بھلا نبی مکرم ﷺ ہماری توصیف و ثنا کے کب محتاج ہیں، محتاج تو ہم ہیں کہ حضور ﷺ ہمیں اپنے غلاموں میں شمار کرلیں۔ شعورِ نعت کا دعویٰ کون کرسکتا ہے۔ یہاں تو عجز و انکسار کی بیساکھیاں بھی ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہیں، قلم میں اتنی سکت کہاں کہ اوصافِ مصطفی ﷺ بیان کرسکے۔ لفظوں میں اتنی تاب کہاں کہ جلوۂ محبوب ﷺ کو دامنِ دل میں سمیٹ سکیں اور خیال میں اتنی وسعت کہاں کہ سیاح لامکاں کے قدموں کے نقوش جمیل کو حیطۂ شعور میں لے سکے۔ شاعرِ ’’نیاز‘‘ دست بستہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں کھڑا ہے اور اسے اپنی بے نوائی کا احساس ہے۔
کسی کے بس میں کہاں نعت حضرتِؐ والا
کہ ہے فقط یہ عطائے شہِؐ حجاز کی بات
کر سکے ادراک شانِ سیدِؐ کون و مکاں
عقل کے مقیاس میں کب اتنی گنجائش ہوئی
محمد حنیف نازش قادری کا یہی عجز، یہی انکسار، ان کا سرمایہ حیات اور توشۂ آخرت ہے۔ میری دعا ہے کہ رب، محمدؐ، ثنائے محمد ﷺ کو حرفِ پذیرائی سے نوازے۔
(آمین)