دامنِ شعر میں مطافِ حمد کی رم جھم- نعت کے تخلیقی زاویے
نورین طلعت عروبہ کے شعری مجموعہ َربَّنا کا تعارف
(2015ء)
وہ اپنے بندوں پر انتہائی مہربان اور شفیق ہے۔ وہ حاجت روا بھی ہے اور مشکل کشا بھی، وہ سمندروں کو خروش عطا کرتا ہے۔ روشنی کو اجالے کا ہنر دیتا ہے۔ اسی کے حکم سے بنجر زمینوں پر شاداب موسم اترتے ہیں، پتھر میں کیڑے کو رزق دیتا ہے۔ وہی اپنے بندوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے، بندہ اپنے خالق کا احسان مند کیوں نہ ہو، حروف تشکر اس کی زبان پر کیوں نہ سجدہ ریز ہوں، جلال و جمال خداوندی کے پس منظر میں جب کلماتِ تشکر و امتنان شعر کے پیکرِ دلکش میں ڈھلتے ہیں تو نغمۂ حمد قرطاس و قلم پر نازل ہوتا ہے۔ دل کی ہر دھڑکن اس نغمۂ حمد کو اپنے لبوں پر سجا لیتی ہے اور بندگانِ خدا کو شعورِ بندگی عطا کرتی ہے۔ ’’رَبَّنَا‘‘ نورین طلعت عروبہ کے حمدیہ کلام کا مجموعہ ہے۔ آپ ممتاز نعت نگار ہیں۔ ان کی نعت نگاری کا اعتراف قومی سطح پر بھی کیا جاچکا ہے۔
نورین طلعت عروبہ نے دامنِ شعر میں جو مطافِ حمد تخلیق کیا ہے وہ سجدوں ہی سے آباد نہیں بلکہ آنسوئوں، ہچکیوں اور سسکیوں سے بھی معمور ہے۔ قدم قدم پر سوز و گداز کی ان گنت مشعلیں جل رہی ہیں، کشور دیدہ و دل میں شعور بندگی کی ان گنت ضیائیں روشن ہیں۔ عروبہ کے حمدیہ کلام میں لوح و قلم ہی محوِ ثنا نہیں، نطق و بیان بھی محوِ التجا ہیں۔
ذرّے زمین پر تری تعریف میں مگن
ماہ و نجوم چرخ کے اُس پار سجدہ ریز
جب چاہوں تری نعمتیں کاغذ پہ رقم ہوں
مَس کر کے قلم سورۃ رحمن سے لکھوں
’’رَبَّنَا‘‘ میں شامل کلام غزل کی ہیئت میں ہے، ایک کے سوا ہر حمد میں سات اشعار ہیں۔ اس حمدیہ مجموعہ میں ایک بھی مقطع نہیں، لاشعوری طور پر شاعرہ نے اپنی ذات کی نفی کرکے اپنے خالق کی ذاتِ مقدسہ کے آگے سر جھکایا ہے کہ وہی ایک ذات ہے جسے فنا نہیں۔ وہ ازل بھی ہے اور ابد بھی۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہے اور اُسے ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنا ہے، شاعرہ نے اس عقیدے کو مرکز و محور بنایا ہے کہ آسمانوں سے اترنے والی روشنی محلات ہی میں نہیں غریب کی جھونپڑی میں بھی یکساں نزول کرتی ہے۔
جذبات ہیں کہ میرے قابو میں ہی نہیں ہیں
اور کہنا چاہتی ہوں جذبات سے زیادہ
مرے چمن میں کھلائے سدا بہار گلاب
مرے نصیب کی پت جھڑ کو بھی بہار کیا
نورین طلعت عروبہ ایک پرامن معاشرے کی تمنائی ہیں، اس معاشرے میں تو غریب کو سانس لینے کی بھی اجازت نہیں، اس میں غریب کے بچوں سے آخری نوالہ بھی چھینا جارہا ہے انہیں یقین ہے کہ صورت حال ضرور بدلے گی، اولادِ آدم کا دامن امن اور سلامتی کے پھولوں سے ایک بار پھر مہک اٹھے گا۔ نخلِ تمنا کی ہر شاخ پر پھول کھلیں گے، یقین کی چاندنی ان کے شعری وژن میں اترتی دکھائی دیتی ہے۔ عجز و انکسار کے جگنو مشعلیں لیے فضائوں میں اُڑ رہے ہیں۔ فصیلِ شہرِ آرزوپر چراغاں ہو رہا ہے۔ نئی نئی تراکیب نے تفہیمِ شعر کے مقّفل دروازوں پر دستک دی ہے۔ مثلاً گلابِ اسد، نکہتِ فہم، قریۂ فکر، دعائیہ انداز اور التجائیہ اسلوب ان کی حمدیہ شاعری کو انفرادیت کا رنگ دیتا ہے۔ منظر نگاری ان کے شعر کا زیور ہے۔ دعا ہے ربِ قدیر انہیں شہرِ سخن میں مزید چراغاں جلانے کی توفیق دے اور ان کے آنسوئوں کی سجدہ ریزی کو قبول فرمائے۔
جو ملتزم سے لگی ہے قبولیت کے لیے
میں چاہتی ہوں مجھے تو وہی دعا کر دے
(ریاض حسین چودھری)