خوشبو تریؐ جوئے کرم : منظر اور پیش منظر- نعت کے تخلیقی زاویے
خوشبو تِریؐ جُوئے کرم نعتیہ شعری مجموعہ: ریاض ندیمـؔ نیازی
قلم کی یہ مجال اور اربابِ قلم کی یہ جرأت کہاں کہ وہ ضیاعِ ازل کی تخلیقِ بے مثالؐ کے اوصافِ جمیلہ محامد و محاسن کو حیطۂ تحریر میں لانے اور اس منصبِ جلیلہ کا حق ادا کرنے کا تصور بھی ذہن میں لاسکیں۔ ہم غلامانِ کمتریں کی تو ہر سوچ ہی مواجۂ اقدس میں حرفِ التجاء بن کر، سر جھکائے، حضورؐ کی چشمِ کرم کی آرزو مند رہتی ہے۔ یہ اعزازِ لازوال تو مقدر سے ملتا ہے۔
پاکستان ’’غلامانِ محمدؐ‘‘ کا حصارِ آہنی ہے۔ ارضِ وطن کی بھیگی ہوائیں بھی درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں لئے درِ آقاؐ پہ اذنِ حضوری کی منتظر رہتی ہیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج میرے پاکستان کا گوشہ گوشہ نعتِ حضورؐ کی ضیا پاشیوں سے منور ہے۔ فصیلِ ارضِ وطن پر دیدہ و دل کے انہی سرمدی چراغوں کی روشنی ہے۔ ہزار آندھیوں کے باوجود ان چراغوں کی روشنی مدھم نہیں ہوسکی اور نہ ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ ’’نعت‘‘ وطنِ عزیز کی ثقافتی اور نظریاتی اکائی کا بلیغ استعارہ ہے۔ سب علامتیں اِسی استعارے سے روشنی مستعار لیتی ہیں۔
اکیسویں صدی بھی حضورؐ ہی کی صدی ہے۔ ہر زمانہ حضورؐ کا زمانہ ہے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جدید اردو نعت کے افق پر جو ستارے طلوع ہوئے ہیں ان میں ایک اہم نام ریاض ندیمؔ نیازی کا بھی ہے۔ ’’خوشبو تریؐ جوئے کرم‘‘ ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ ہے۔ اس سے قبل آپ منتخب نعتوں کے متعدد مجموعے ترتیب دے چکے ہیں جو کئی حوالوں سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ریاض ندیمؔ نیازی کے ہاں سادگی کا حسن اپنی رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ بے ساختہ پن آپ کے فن کا اساسی رویہ ہے۔
میری بینائیاں عرش سے جا ملیں
دیدہ ور آئینہ دیکھتے رہ گئے
اِن کا شعری وژن رنگوں، روشنیوں اور خوشبوئوں سے آباد ہے۔ یہ رنگ، روشنیاں اور خوشبوئیں جب درِ اقدسؐ پر عجز اور خود سپردگی کے چراغ جلاتی ہیں تو ’’خوشبو تریؐ جوئے کرم‘‘ کا منظر ہی نہیں، پیش منظر بھی روشن ہوجاتا ہے۔ میری دعا ہے کہ ریاض ندیمؔ نیازی کو بارگاہِ رسالت مآبؐ سے سندِ جواز عطا ہو اور حرفِ پذیرائی ان کا مقدر بنے۔
(آمین)
ریاض حسین چودھری
(شہر اقبال۔۔۔14 اگست 2009ئ)
فروری 1997ء