قدموں کو مَیں نے چوما ہے قدموں میں بیٹھ کر- زر معتبر (1995)
قدموں کو مَیں نے چُوما ہَے قدموں میں بیٹھ کر
عرشِ بریں کو دیکھا ہَے قدموں میں بیٹھ کر
مَیں کھوگیا تھا گردشِ لیل و نہار میں
اپنا پتہ بھی پایا ہے قدموں میں بیٹھ کر
ہَے ایک عالم آپؐ کی چوکھٹ پہ اشکبار
شاعر بھی آج رویا ہے قدموں میں بیٹھ کر
اوجِ فلک سے آتے ہیں پیغامِ تہنیّت
منظر عجیب دیکھا ہَے قدموں میں بیٹھ کر
رودادِ غم سنائے چلا جا رہا ہُوں میں
دل کا غبار نکلا ہے قدموں میں بیٹھ کر
مجھ سے بھی بے نوا پہ کرم کی یہ بارشیں
صحنِ شعور مہکا ہے قدموں میں بیٹھ کر
اِک دُوسرے سے پُوچھتی پھرتی ہیں بجلیاں
کس کا نصیب چمکا ہے قدموں میں بیٹھ کر
دِل کے ورق پہ ایک قصیدہ حضورؐ کا
اشکِ رواں نے لکّھا ہے قدموں میں بیٹھ کر
پُوچھے کوئی ریاضؔ دلِ ناصبُور سے
کتنا سکون ملتا ہے قدموں میں بیٹھ کر