خوشبوئے ’’ریاضِ مدحت‘‘- نعت کے تخلیقی زاویے
ریاض حسین زیدی کے مجموعہ نعت پر تاثرات
ابتدائے آفرینش سے لے کر لمحۂ موجود تک تخلیق کائنات کا پس منظر اور پیش منظر دونوں ممدوح ارض و سماوات کے نعلینِ مقدسہ کی رعنائیوں کا مرقع بنے ہوئے ہیں۔ روشنیوں، رنگوں اور خوشبوئوں کا یہی جھرمٹ کائنات کے ہر حسن کا مرکز و محور ہے اور ابد تک بلکہ ابد کے بعد بھی روشنیوں، رنگوں اور خوشبوئوں کا یہی سائبانِ کرم کائنات کی ہر چیز کو خنک موسموں اور شاداب ساعتوں کے دامنِ رحمت میں لیے رہے گا۔ اس لیے کہ تمام مخلوقات... انسان، جنات، ملائکہ، چرند، پرند، عرش، کرسی، لوح، قلم، زمین، آسمان، چاند، ستارے...ہر چیز حضور کے قدموں کی خیرات ہے۔ برناباس کی انجیلِ مقدس کے مطابق دنیا کے پہلے انسان نے بارگاہِ خداوندی میں یونہی التماس نہیں گزاری تھی کہ باری تعالیٰ! میرے ایک ناخن پر اپنا اور دوسرے ناخن پر اپنے محبوب رسول ﷺ کا نام لکھ دے جس کی خاطر تو نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے اور جب کاتبِ تقدیر نے دنیا کے پہلے انسان کے ایک ناخن پر ’’اللہ‘‘ اور دوسرے پر ’’محمد‘‘ ﷺ کے الفاظ تحریر کردیئے تو دنیا کے اس پہلے انسان نے فرطِ عقیدت سے اپنے دونوں انگوٹھوں کو چوم لیا۔ گویا اس کرۂ ارض پر نعت کی باقاعدہ ابتداء بھی اسی عملِ معتبر کے ساتھ ہوگئی۔ ایوانِ نعت میں تو چراغاں اس وقت سے ہورہا تھا جب ربِ کائنات نے تخلیق کائنات سے بھی پہلے نورِ محمدی ﷺ تخلیق کیا، ملائکہ کا ظہور عمل میں آیا تو یقینا لامکاں کی وسعتیں نغمہ صلِ علیٰ سے گونج اٹھیں۔ ہدایتِ آسمانی کی آخری دستاویز میں خدائے عظیم نے فرمایا کہ میں اور میرے فرشتے حضور پر درود بھیجتے ہیں۔ اے آسمان والو! تم بھی حضور ﷺ پر خوب درود بھیجو۔ نعت درود و سلام ہی کے شعری پیکر کا نام ہے۔ لامکاں کی وسعتیں ازل ہی سے نغمۂ صلِ علیٰ سے معمور ہیں اور ابد تک نغمہ صلِ علیٰ سے معمور رہیں گی۔ اس لیے کہ ربِ ذوالجلال حیی بھی ہے اور قیوم بھی، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس لیے ریاضِ مدحت میں خوشبوئوں کے رتجگوں کو بھی اذنِ دوام حاصل ہے۔
ریاضِ مدحت سید ریاض حسین زیدی کا اولین نعتیہ مجموعہ ہے جو نئی صدی کے آغاز پر منصہ شہود پر آرہا ہے۔ ہر صدی میرے حضور کی صدی ہے، ہر لمحہ میرے حضور کا لمحہ ہے، ہر ساعت آمنہؓ کے لال کی چوکھٹ پر منتظرِ کرم ہے۔ پرچمِ خوشبوئے اسمِ محمد کائنات کے ہر افق پر لہرا رہا ہے، ثنائے رسول کون و مکاں کی گردشِ ماہ و سال سے بے نیاز ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہر عہد نعت کا عہد ہے، ہر دور نعت کا دور ہے۔ روئے زمین پر آج تک ایک بھی ایسی ساعت نہیں اتری جس کے ہاتھ میں ثنائے حضور کا پرچم نہ ہو۔ البتہ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں حضور کی نعت کو جو فروغ ملا وہ اس صدی کا سب سے بڑا اعزاز ہے اور سید ریاض حسین زیدی بھی اس اعزا ز میں برابر کے شریک ہیں۔ قافلۂ نعت نگاراں میں ذرا دیر کے بعد شامل ہوئے ہیں لیکن انہوں نے اپنے بے پایاں استقلال سے ’’دیرآید درست آید‘‘ والا محاورہ عملاً درست ثابت کردکھایا ہے۔
’’ریاضِ مدحت‘‘ کے ورق ورق پر محامدِ سرکارؐ اور محاسنِ مصطفیٰ ﷺ کے تذکارِ جلیلہ سے چراغاں ہورہا ہے۔ شاعر تمنائے طلوعِ سحر میں کشکول گدائی لیے درِ حضور پر سر جھکائے کھڑا ہے۔ ریاض کا گلشنِ احساس فیض شفاعت کے سدا بہار پھولوں سے مہک رہا ہے اور ان کی رنگینی سے مرکزِ نگاہ بنا ہوا ہے۔ سید ریاض حسین زیدی کا نعتیہ کلام پڑھ کر یہ احساس ذہن کے ہر گوشے کو منور کردیتا ہے کہ حضور رحمتِ عالم ﷺ کے درِ اقدس پر شعورِ بندگی اور سرور بندگی کا قرینہ ملتا ہے، فضائلِ مصطفی ﷺ سے حروفِ ثنا اجالوں کے پیامبر بنے ہوئے ہیں اور فضائے گلستانِ نعت میں ہر لمحہ رم جھم کرنوں کا نزول جاری ہے۔ ان کی نعت پڑھ کر یہ احساس بھی ابھرتا ہے کہ سیرتِ رسول کی روشنی میں قلوب کی تالیف بھی تسخیر کائنات سے کم نہیں کیونکہ اسوہ خیرالبشر کی پیروی کا صلہ شاعر کو احترامِ آدمیت کی پائندگی کی صورت میں ملا ہے۔ ریاض کے قصرِ تخیل میں غار حرا کا روزن کھلتا ہے تو مضامینِ نعت تواتر سے اترنے لگتے ہیں۔ بے نوائی میں مقدر کا مسکرانا غلامِ بے نوا کی پذیرائی کا منطقی نتیجہ ہے کیونکہ ہم غلاموں کا تو ہر حوالہ ہی والیٔکون و مکاں کے غبارِ نقوشِ پا سے اعتبار و اعتماد کی سند حاصل کرتا ہے۔ ریاض بجا طور پر اس شعور کو عام کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جو آنکھ تاجدارِ کائنات کے تصور دلپذیر سے آشنا نہیں وہ بینائی کے کسی تصور پر بھی پورا نہیں اترتی۔ شاعر نے شہرِ حضور کو قریۂ جمال کہا ہے جہاں ہر لمحہ آسمانوں سے رحمت برستی ہے اور جہاں وارفتگی کا عجیب عالم ہوتا ہے۔ شاخِ ثنا پر تمنا کے پھول کھلتے ہیں، گنبدِ خضریٰ کی ہریالی اور شادابی خطۂ دل کی ویرانیوں میں اترتی ہے تو عہدِ خزاں کی پامالی کا ہر تصور خود بخود مٹنے لگتا ہے۔ روضۂ اطہر کی جالی دیدہ و دل میں گل افشانی کرتی ہے تو ہر طرف عروسِ صبحِ بہار اپنے پر پھیلادیتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ وجد میں آجاتا ہے۔ نعت گوئی اسلوبِ قرآنی کی تجسیم کو کہتے ہیں۔ کسی حوالے سے بھی اس اساسِ ایمانی کو مشغلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عشاقِ مصطفی ﷺ اللہ رب العزت کی آخری کتاب کو ایک مسلسل نعت سے تعبیر کرتے ہیں۔ آج کا شاعر دامن آرزو میں روشنی کے انہی پھولوں کو سجانے کا اعزاز حاصل کررہا ہے۔ سید ریاض حسین زیدی نے سعادتوں کے اسی عہد نامے کو حیطۂ تحریر میں لانے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ’’ریاضِ مدحت‘‘ کا شاعر یقینا مقدر کا دھنی ہے۔ جسے نعت کہنے کا سلیقہ حضور کے درِ اقدس سے عطا ہوجائے اس کے مقدر کا کیا کہنا۔ ریاضِ دل میں غنچے ہی نہیں کھلتے اس کے لبِ تشنہ سے پھول بھی جھڑتے ہیں۔ حضور کے قدموں میں آکر ہمدوشِ ثریا ہونے کا تصور اتنا ایمان افروز ہے کہ ستارے بھی شاعر کے بختِ رسا پر رشک کرتے ہیں۔ واقعی جان کنی کے عالم میں تاجدارِ مدینہ کی چشم کرم کی تلاش ہم غلاموں کے سفرِ زندگی کا حاصل ہے۔ ریاضِ مدحت کے اکثر مصرعوں کے بارے میں ضرب المثل بننے کی پیشین گوئی بڑے وثوق سے کی جاسکتی ہے اور یہ یقینا غیر معمولی بات ہے۔ ریاض زیدی گنجلک پن کی دلدل سے شعر کا دامن آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ اکثر اشعار براہِ راست دل میں اتر جاتے ہیں اور اچھے شعر کی پہچان بھی اسی خوبی کو ٹھہرایا گیا ہے۔ میں بھی اپنی گزارشات کو ریاض زیدی صاحب کے اس شعر کے ساتھ سمیٹ رہا ہوں:
آپ کے حسنِ مجسم کو کہاں تک سوچے
نقش گر اس کے خد و خال بنائے کیسے