ضیا نیّر کی ثنائے کریمین حمدو نعت کا حسین امتزاج- نعت کے تخلیقی زاویے
نعت وہ واحد صنفِ سخن ہے جو کسی ایک ہیئت تک محدود نہیں بلکہ تمام اصناف سخن پر اس کی حکمرانی ہے۔ اس لیے نعت کائنات ہے اور کائناتِ نعت کا کینوس ارض و سما پر محیط ہے۔ پابند اور آزاد نظم سے لے کر نظم معریٰ تک اور نظم معریٰ سے قطعہ نگاری اور ہائیکو تک اور پھر ثلاثی سے نثری نظم تک، ہر طرف ثنائے رسول ﷺ کی بہارِ جاوداں پرفشاں نظر آتی ہے۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں ہی میں ثلاثی، ہائیکو اور نثری نعت کا بھی عہدِ روشن طلوع ہوگا۔ مضامینِ نعت کا کسی ایک ہیئت تک محدود رہنا کسی بھی حوالے سے ممکن تھا اور نہ ہے لیکن غزل کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آج بھی غزل کی ہیئت ہی مقبول ترین ہیئت ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی زیادہ تر نعت غزل کی ہیئت ہی میں کہی جائے گی۔ غزل اپنے بختِ رسا پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے کہ کائنات نعت میں اسے ہر سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہے اور آنے والی صدیوں میں بھی نعت کے لیے غزل کی ہیئت ہی مقبول ترین رہے گی۔ ضیا نیرؔ کا شمار بھی کاروانِ نعت کے اہم اور ممتاز شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے ’’ثنائے کریمین‘‘ کے لیے غزل کی ہیئت کا انتخاب کرکے اظہار و ابلاغ کے نئے دروازوں پر دستک دی ہے۔ ان کی نعت اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، محسن کاکورویؒ، امیر مینائیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، حافظ مظہرالدینؒ، حافظ لودھیانویؒ اور حفیظ تائبؒ کے تخلیقی تسلسل کی ہی ایک صورت ہے۔ اپنی شاندار روایات سے اپنے تخلیقی رشتوں کو مضبوط بناتے ہوئے ضیا نیرؔ کی نعت جدید تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے شاہراہِ عشق پر نئے چراغ روشن کرنے میں مصروف ہے۔
اگر قربِ الہٰی کی آرزو ہے تو پہلے مدینے کی گلیوں کی خاکِ انور کو دامانِ چشمِ تر میں چھپانے کا ہنر سیکھو اس لیے کہ دہلیزِ مصطفی کو بوسہ دیئے بغیر الوہیت اور ربوبیت کی سرمدی وادیوں میں اترنے کا تصور بھی ممکن نہیں۔ خدائے وحدہٗ لاشریک تک رسائی کا ہر راستہ حضور ختمی مرتبت ﷺ کے دامانِ عجز اور ردائے بندگی کو چوم کر آگے بڑھتا ہے۔ واسطۂ رسالت کے بغیر عرفانِ الہٰی کا ہر دعویٰ بے بنیاد ہے اور یہی نقطہ نظر منشائے ایزدی کے عین مطابق ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جدید اردو حمد و نعت کے تخلیقی اثاثوں پر سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو یہ خوشگوار احساس ابھرتا ہے کہ آج کا نعت گو حمد گوئی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حمدیہ مشاعروں سے حمدیہ کتب کی اشاعت تک ایک سلسلۂ نور ہے جو دور دور تک بلکہ لامحدود وسعتوں تک پھیلایا ہوا ہے۔ ’’ثنائے کریمین‘‘ حمد و نعت کی دلآویزیوں کا مرقع ہے۔ روحِ عصر ہر ورق پر بولتی ہے۔ امت مسلمہ کے مصائب اور مسائل کا ذکر استغاثے کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو حمدو نعت کا کینوس سوچ اور اظہار کی لامحدود وسعتوں کی طرف محو پرواز نظر آتا ہے۔یہ مجموعۂ حمدو نعت سچے جذبوں کی خوشبو کا امین ہے، شعر شعر میں شعورِ بندگی اورمحبت رسول کا زمزم بہہ رہا ہے۔ شاعر کو یقین ہے کہ:
؎ درِ حبیب پہ پہنچوں گا میں گرا کے اسے
جو میری راہ میں حائل ہے ہجر کی دیوار
یقیناً یہ ہجر کی دیوار ٹوٹ کر رہے گی۔
صحرائے شہر مدینہ کے حصارِ رحمت میں اربوں کھربوں دل روزِ ازل سے دھڑک رہے ہیں اور ابد تک ان دھڑکنوں کی گونج میں اُفق اُفق پر چاند ستارے رقم ہوتے رہیں گے۔ ربِ محمد ﷺ ان کی طبع کو جولانی اور ان کے جذبوں کو مزید روانی عطا فرمائے۔ ان کا قلم رنگ و نور کی بارشوں میں بھیگتا رہے اور یہ بارشیں دیوارِ جاں پر آنسوئوں کے چراغ سجاتی رہیں۔