جہانِ شوق۔ ابوبکر ناظم- نعت کے تخلیقی زاویے
ریاض حسین چودھری
درود و سلام کے پیکر شعری کو نعت کہتے ہیں۔ نعت تخلیق کائنات کے دیباچے کا حرف اول ہے اس لیے کہ حضور ﷺ نہ ہوتے تو یہ زمین ہوتی اور نہ یہ آسمان، چاند ہوتا نہ ستارے، شاخوں پر پھول کھلتے اور نہ کشت آرزو میں فصل نو بہار لہلہاتی۔ کائنات کا ہر حسن حضور ﷺ کے قدموں کی خیرات ہے۔ رعنائی خیال کا ہر قافلہ مکینِ گنبدِ خضرا ﷺ کے درِ اقدس کی خاکِ انور کا دریوزہ گر ہے۔
درود سنت رب جلیل ہی نہیں حکم پروردگار عالم بھی ہے، یہ حکم صاحبانِ تقویٰ کے لیے ہے۔ عشقی اور قلبی حوالے سے وہ مفلس و نادار جن کا کشکول آرزو ایمان و ایقان کے سکوں ہی سے خالی ہے وہ سرے سے اس حکم ربی کے مخاطبین ہی میں شامل نہیں، ہدایت آسمانی کی آخری دستاویز کے اوراقِ منور سے اکتساب شعور اور کسب فیض کرنے کے بعد اس پیکرِ شعری کی تخلیق افق ادب پر طلوع ہوتی ہے۔ حروفِ نعت کی حنا بندی کا عمل شہر سخن کے اسلوب جمال کا آئینہ ہے اور اس آئینے میں درو دیوار شہر خنک کے عکس جمیل کے ظہور سے اقلیم دیدہ و دل میں رتجگوں کا نزول ہوتا ہے۔ آخر شب آنسوئوں کے آئینہ خانے میں جب عکسِ گنبد خضرا کے سرسبز و شاداب موسم اترتے ہیں تو فضائیں جھوم اٹھتی ہیں، پلکوں پر چراغاں سا ہونے لگتا ہے، کشت دیدہ و دل میں باد بہاری چلنے لگتی ہے۔ کونین کو وجد آجاتا ہے۔ ساعتیں درود پڑھنے لگتی ہیں۔ لہو کی ایک ایک بوند حرفِ سپاس بن جاتی ہے، صبا کا آنچل صل علی کی کلیوں سے بھر جاتا ہے، شامِ غم کی تنہائیوں میں سیدہ آمنہؓ کے لالؐ کے تصور کی چاندنی بکھرنے لگتی ہے اور دھنک کے ساتوں رنگ بہر سلامی جھک جاتے ہیں۔ رسولِ بے مثال ﷺ سے رشتۂ غلامی استوار کیے بغیر نہ تو قوموں کی برادری میں سر اٹھا کر چلنے کی خوئے دلنواز کو ہی زندہ رکھا جاسکتا ہے اور نہ عظمت رفتہ کی بحالی کا خواب ہی شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے، ہمیں خود سپردگی کی ہر کیفیت کو قدمینِ سرکار ﷺ پر نثار کرنا ہوگا۔
لغزشِ مستانہ کے بغیر فنی سفر کی شاہراہِ ارتقاء پر پیش رفت کچھ ادھوری سی رہتی ہے اور منزل پر پہنچ کر بھی اپنے نقوش پا کی تلاش کا مرحلہ آسان نہیں لگتا لیکن ابوبکر ناظم نے تخلیقی حوالوں کو مربوط بناتے ہوئے یہ کٹھن مرحلہ بھی آسانی سے طے کرلیا ہے ورنہ خودنمائی، خودستائی اور خودپسندی کا زہر رگ و پے میں سرایت کرجاتا ہے اور نرگسیت کی امربیل کچھ اس طرح فنکار کے چمن خیال کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ نخلستانِ شعر میں ادھ کھلی کلیاں مرجھائی مرجھائی سی دکھائی دیتی ہیں، چاروں طرف خود فریبی کے کانٹوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ خدا کا شکر ہے کہ ’’جہانِ شوق‘‘ کا شاعر فکری اور نظری مغالطوں کی ان بھول بھلیوں کی نذر نہیں ہوا اور یقینا ایسا ہونا ممکن بھی نہ تھا کیونکہ نبی آخرالزماں حضور رحمت عالم ﷺ سے شاعر کی کومٹ منٹ غیر مشروط بھی ہے اور غیر متزلزل بھی، مخلوقات میں سے، شاعرکا ہر حوالہ حضور ﷺ کی ذات اقدس سے شروع ہوکر حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کائناتی سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ رب محمد ﷺ نے مدحتِ رسول ﷺ کے باب میں لفظ زوال درج ہی نہیں کیا۔ لامکاں کی وسعتیں اس وقت بھی درود و سلام کے زمزموں سے گونج رہی ہوں گی جب ہر چیز موت کی آغوش میں سوچکی ہوگی حتیٰ کہ موت کو بھی موت آچکی ہوگی۔
’’جہانِ شوق‘‘ نعتیہ ادب میں ایک گرانقدر اضافہ ہے، میری دعا ہے کہ ابوبکر ناظم کی طلبِ نعت کی تڑپ کو کبھی قرار نہ آئے۔ بارگاہِ حضور ﷺ میں وہ دامنِ آرزو پھیلا کر دست بستہ کھڑے رہیں اور ان کا کاسۂ فن جذب و مستی کے سرمدی سکوں سے کبھی لبریز نہ ہو اور دیدہ و دل کی مشعلِ آرزو کبھی نہ بجھنے پائے۔