نقشِ اول۔ حسین محی الدین قادری- نعت کے تخلیقی زاویے

مقصدیت کا نور جب رعنائی خیال کے گرد منوّر ہالے کھینچتا ہے تو افقِ دیدہ و دل پر فکر و فن کی نئی صبحوں کے طلوع ہونے کی بشارتیں تحریر ہونے لگتی ہیں، جذبوں کی آنچ کچھ اور بھی تیز ہوجاتی ہے اور وادیٔ خیال میں بادِ بہاری چلنے لگتی ہے، مقصدیت کسی بھی فن کی آبرو ہے۔ جب صانعِ ازل نے کوئی چیز مقصدیت کے بغیر پیدا نہیں کی تو پھر شعر و ادب کی دنیا کیسے مقصدیت کے جوہرِ تخلیق سے محروم ہوسکتی ہے۔ ادب برائے ادب کا خود ساختہ فلسفہ اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ اکیسویں صدی میں ادب برائے زندگی کا زندگی آمیز اور زندگی آموز نظریہ اپنی پوری تابانیوں اور جولانیوں کے ساتھ قریۂ لوح وقلم پر نور کی بارش کررہا ہے۔ نور کی یہی بارش ہمارے نوجوان شاعر صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کی کشتِ ہنر پر بھی ہورہی ہے۔

مری تحریر میں علم و ادب کے پھول مہکیں گے
فقط لوگوں کو بہلانا مجھے اچھا نہیں لگتا

کومٹ منٹ کی کوکھ سے کسی تخلیق کار کے اساسی رویے جنم لیتے ہیں، حسینؔ نے اسی کومٹ منٹ کے نور سے اقلیمِ شعر میں چراغاں کا اہتمام کیا ہے۔ اوراقِ جاں پر جذبوں کی ایک کہکشاں اترتی دکھائی دیتی ہے۔ تاریخِ ادب گواہ ہے کہ تخلیق کار کے تہذیبی، ثقافتی، روحانی اور عمرانی نظریات کا کسی نہ کسی حوالے سے اس کے فن میں ضرور اظہار ہوتا ہے۔ اگر وہ شعوری طور پر ان نظریات کو چھپانے کی کوشش کرے گا تو اسے منافقت کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکے گا۔ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور شاعری دل کا آئینہ ہی تو ہے۔ اپنے نظریات کو تخلیقی رویوں میں تبدیل ہونے سے روکنا بذاتِ خود ایک غیر تخلیقی عمل ہے اور کسی بھی غیر تخلیقی عمل کو دیارِ شعر و سخن میں داخلے کا پروانہ جاری نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ زمانۂ طالب علمی ہی میں حسینؔ محی الدین قادری شبت اور رجائی سوچ کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ عطیہ خداوندی ہے۔ انہیں یہ وافر مقدار میں ملا ہے اور اس کا بے ساختہ اظہار بھی ہورہا ہے۔

کتنے اہداف ہیں میرے سامان میں
آسماں چاہیے، بال و پر چاہیے

حسینؔ کو یہ بال و پر تصوف نے عطا کیے ہیں۔ ان کے تمام تر اساسی رویے تصوف کی گود میں پروان چڑھے ہیں۔ تصوف کا نور انہیں وراثت میں ملا ہے۔ آپ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے صاحبزادے ہیں، میں ڈاکٹر صاحب کو اپنے عہد کی دانش سے تعبیر کرتا ہوں۔ دانشِ عصر کی جملہ تخلیقی توانائیاں انہیں ورثے میں ملی ہیں۔ شاعر کے شعری وژن کی حنا بندی انہی تخلیقی توانائیوں سے ہوئی ہے۔

لاہور کی مٹی سے کیا کیا ہے سحر پھوٹی
اس مٹی کی خوشبو بھی سانسوں میں اتر آئی

ان کے نقشِ اوّل کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات قاری کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شاعر ایک واضح پیغام لے کر افقِ ادب پر طلوع ہوا ہے۔ حسینؔ الفاظ کے گورکھ دھندے میں نہیں الجھتے بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ ابلاغ کے مراحل سے گزرجاتے ہیں۔ ان کی کومٹ منٹ غیر متزلزل اور غیر مشروط ہے۔ انہیں اپنے نصب العین پر کامل یقین ہے۔ ان کی شاعری تیقّن کے انہی چراغوں کا عکسِ جمیل ہے۔ ان کی آواز آوازوں کے اس جنگل میں الگ پہچانی جاتی ہے۔ ان کی شاعری جذبوں کے تیز بہائو کا نام ہے۔ سوچ کے اَن گنت دائرے ان کے اپنے ہیں، اظہار کا سلیقہ بھی منفرد ہے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے نوجوان شاعر کا مستقبل روشن ہی نہیں روشن تر ہے۔ غزل کا رچائو مثنوی کا بہائو اور نظم کی تمکنت پوری تخلیقی توانائیوں کے ساتھ ان کے شعر میں جلوہ گر ہے۔ ربِ کائنات نے انہیں جذبۂ عشق سے نوازا ہے۔ عشق ان کے فکری اور نظری حوالوں کا مرکزی نقطہ ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا:

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

عشق کی یہ آگ حسینؔ کے لفظ لفظ میں الائو بن کر دہک رہی ہے ان کے آئینہ خانے میں عشق ایک جامد اور ساکت تصویر کی طرح محض دیوار پر آویزاں نہیں بلکہ ایک متحرک عکس کی صورت میں جلوہ گر ہے اور یہی تحرک زندگی کی سب سے روشن اور واضح علامت ہے۔ یہ شعری دستاویز رعنائیِ خیال کا دلکش مرقع ہے۔ ایک تڑپ ہے جو شاعر کو مضطرب رکھتی ہے۔ عملِ تخلیق میں یہی اضطراب مہمیز کا کام دیتا ہے اور فنی ارتقاء کے مختلف مراحل طے ہونے لگتے ہیں۔ ان کا شعری وژن کسی خاموش اور پرسکون جھیل کے مانند نہیں بلکہ ایک گنگناتی ہوئی ندی کی طرح ہے جس کی رقص کرتی موجیں زندگی اور حرکت کا پیغام دیتی ہیں۔ ان کا فن تموج آشنا ہے۔ ملتِ اسلامیہ پر صدیوں سے طاری جمود کو دیکھ کر اقبالؒ نے کہا تھا:

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

کربلا کا استعارہ اپنے تمام تہذیبی اور ثقافتی پس منظر کے ساتھ بھی ان کے ہاں مختلف انداز میں آیا ہے۔ تفہیم کے نئے دروازے کھلتے ہیں، سوچ اور اظہار کے نئے آفاق روشن ہوتے ہیں تو شاعر ظلم کے خلاف خود ایک صدائے احتجاج بن جاتا ہے۔

حسینؔ نے بڑے فلاسفروں کی طرح عظمتِ آدم کے گیت گائے ہیں کہ اے ربِ کائنات، تیری اس دنیائے رنگ و بو میں انسان ہی عظیم و معتبر ہے۔ آزاد نظم لکھتے ہیں تو وادی فکرو خیال مزید پھیل جاتی ہیں۔ ان کا ڈکشن بھی اپنا ہے، تفہیم کی نئی دنیائوں کی دریافت عمل میں آتی ہے۔ اسلوب انتہائی دلکش ہے۔ جذبوں کی آنچ پر پگھلنے کا شعور رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری آمد اور آورد کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ نقشِ اوّل میں حمد بھی ہے اور نعت بھی، منقبت بھی ہے اور غزل بھی، اکثر نظمیں تحریکی شعور کی آئینہ بردار ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس نے اظہارِ ذات کے لیے مختلف پیمانے اختیار کیے ہیں اور اپنے فن کو کسی ایک صنفِ سخن تک محدود نہیں رکھا۔ زندگی کے تلخ حقائق سے آنکھیں نہیں چراتے بلکہ مسائل اور مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وقت کے چیلنجوں کو قبول بھی کرتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ شاعر کا ذہن تصوف کی روشنی سے منور ہے۔ آگے چل کر شاعر تصوف کی اسی روشنی پر اپنے فکری نظام کی بنیاد رکھے گا۔ میری دعا ہے کہ تخلیق کی شاہراہ پر اعتبار و اعتماد کی یہی روشنی چراغِ راہ بنتی رہے اور قدم قدم پر حرفِ پذیرائی اس کا مقدر بنے۔

o