حق چار یار- نعت کے تخلیقی زاویے
علامہ عارف جاوید کا انتخابِ مناقب
مخزنِ علومِ لوح و قلم، تجلی حرائے دیدہ و دل، محبوبِ خالق ارض و سماوات، وجہ تخلیقِ جہانِ رنگ و بو، انتہا و منتہائے دانش و حکمت، آبروئے جیشِ مقبلاں، زینتِ عرشِ بریں، رونقِ بزم یقیں، رحمۃ للعالمیں، شفیع المذنبین، آقائے جن و بشر، آرزوئے چشمِ کون و مکاں،معلمِ اعظم، حبیبِ مکرم، رسولِ معظم، نبی آخرالزماں، حضور رحمتِ عالم حضرت محمد ﷺ کا براہِ راست تعلیم و تربیت یافتہ گروہِ پاکبازاں ان عظیم انسانوں پر مشتمل تھا کہ بارگاہِ خداوندی سے انہیں رضائے الہٰی کی خلعتیں عطا ہوئیں اور اُنؐ کے نقوشِ قدوم متلاشیانِ حق کے لیے انوار کے مینار ٹھہرے۔ اصحابِ رسولؐ کا ہر عمل رسولِ محتشم ﷺ کے دائرہ عمل سے اس طرح منسلک تھا کہ اس کی سرمدی شعاعیں آج بھی چار دانگ عالم کو بقعہ نور بنارہی ہیں۔ ہر عمل انہی لمحات کی سنگت کا آرزو مند ہے۔ اصحابِ مصطفی ﷺ کی ہر ادا آقا علیہ السلام کے دامنِ پر نور کی خیرات ہے۔ان کا ہر عمل اطاعتِ رسولؐ، اتباعِ خیرالبشرؐ اور سیرت و کردارِ مصطفی ﷺ کا پرتوِ جمیل ہے۔
سیدنا فاروقِ اعظم حضرت بلالِ حبشیؓ کو اپنا سردار کہہ کر پکارتے۔ یہی فاروق اعظم، حضرت علیؓ سے پروانۂ غلامی کے ملتجی ہیں، امام حسنؓ اور حسینؓ کاشانہ عثمانؓ پر پہرہ دیتے ہیں۔ منفی قوتوں کی ریشہ دوانیاں دم توڑ جاتی ہیں۔ خارجیوں کے مکروہ اور خارشی چہرے خود بے نقاب ہوجاتے ہیں، غلط فہمیوں کی گرد چھٹ جاتی ہے اور محبت کی خوشبو ہر دل کے دروازے پر پھر سے دستک دینے لگتی ہے۔
تاریخ، عہدِ رسالت مآبؐ کے بعد خلفائے راشدین کے عہدِ جمال کو ہر لحاظ سے مثالی قرار دیتی ہے۔’’حق چاریار‘‘ کے مرتب ممتاز مذہبی سکالر عارف جاوید نے خلفائے راشدین کے مناقب مرتب کرتے وقت شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر اتحاد امت کی انہی مضبوط بنیادوں کو اپنے شاندار اورمثالی انتخاب کا مرکز و محور بنایا ہے۔عارف جاوید نے تخلیقی سطح پر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔مختلف ادوار اور مختلف طبقات کے فکری اور نظری حوالوں کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ کتاب کے مرتب نے نہ صرف اربابِ فن کی علمی تشنگی کا مداوا کیا ہے بلکہ مورخین اور محققین کے لیے بھی فکرو نظر کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ عارف جاوید نے ’’حق چار یار‘‘ میں قدم قدم پر اس احساس کو اجاگر کیا ہے کہ آج بھی اگر ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں، آپس میں تفرقہ نہ ڈالیں اور خلفائے راشدین کے نقوشِ محبت کو چراغِ راہ بناتے ہوئے عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے سفر پر نکلیں تو ہم ہر ہر قدم پر کامرانیوں کو اپنا منتظر پائیں گے۔ اس ادبی دستاویز کا پیغام ہے:
ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی، بوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ
ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبیؐ کچھ فرق نہیں ان چاروں میں
23 جون 2014ء
o