انٹرویو: عمران نقوی (شہید روزنامہ پاکستان)- نعت کے تخلیقی زاویے
انٹرویو: عمران نقوی
روزنامہ پاکستان: 26 فروری، 2010ء کو شائع ہوا
اقبال کی زمیں سے حرم کی زمیں تک
اشکوں نے جو کیا ہے چراغاں قبول ہو
اس خوبصورت شعر کے خالق جدید اردو نعت کے نمائندہ شاعر ریاض حسین چودھری ہیں۔ احمد ندیم قاسی نے کہا تھا ’’جن شعراء نے اس صنف سخن (نعت) میں ہمیشہ زندہ رہنے والے اضافے کیے ہیں ان میں ریاض حسین چودھری کا نام بوجوہ روشن ہے۔‘‘ ریاض حسین چودھری 8 نومبر 1941ء کو شہر اقبال کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سے بی اے کیا۔ دو سال تک مرے کالج میگزین کے اردو سیکشن کے ایڈیٹر رہے۔ پنجاب یونیورسٹی ہی سے اردو میں ایم اے کیا۔ لاء کالج کے مجلہ ’’المیزان‘‘ کے بھی دو سال تک ایڈیٹر رہے۔ حلقہ ارباب ذوق سیالکوٹ کے دو سال تک سیکرٹری منتخب ہوتے رہے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن سیالکوٹ کے بھی سیکرٹری چنے گئے۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیں۔ دس سال تک پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ’’خونِ رگ جاں‘‘ ان کی ملی نظموں کا مجموعہ ہے جو 1970ء میں شائع ہوا۔ ’’زر معتبر‘‘ ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ ہے۔ ’’رزق ثنائ‘‘ پر انہیں صدارتی ایوارڈ ملا۔ حکومت پنجاب نے بھی ’’رزق ثنائ‘‘ کو سیرت ایوارڈ سے نوازا۔ ’’تمنائے حضوری‘‘ 20ویں صدی کی آخری طویل نعتیہ نظم ہے۔۔ دیگر مجموعوں میں ’’متاع قلم‘‘ اور ’’کشکول آرزو‘‘ شامل ہیں۔
ریاض حسین چودھری سے ہونے والی گفتگو کی تفصیلات نذرِ قارئین ہیں:
س: لکھنے لکھانے کا آغاز کیسے ہوا؟
ج: جب سے ہوش سنبھالا ہے مسلسل لکھ رہا ہوں۔ 55 برس کے تخلیقی سفر میں ایک دن کے لیے بھی دنیائے ادب سے غیر حاضر نہیں رہا۔ لڑکپن میں بچوں کے لیے نظمیں لکھ کر رہگذار شعرپر قدم رکھا۔ چشم تصور میں کئی بار خود کو ایڈیٹر کی کرسی پر بیٹھے دیکھا۔ مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لیا تو وارث میر اور ع۔ ادیب کا طوطی بول رہا تھا۔ ممتاز محقق محمد اکرام چغتائی، صوفی نیاز احمد، پروفیسر منیر احمد بھٹہ، کرنل (ر) ریاض احمد چغتائی اور مشتاق احمد باجوہ میرے کالج فیلوز تھے۔ آسی ضیائی اردو ادب کے استاد تھے۔ انہی کے زیر سایہ خیابان ذوق کی آبیاری ہوئی۔ کالج ٹائم کے بعد ہم چند لڑکے ان سے ’’طلسم ہوشربا‘‘ سبقاً سبقاً پڑھا کرتے تھے۔ آسی ضیائی صاحب کے علاوہ آغا صادق سے بھی اصلاح لیتا رہا ہوں۔
س: نعت گوئی کی طرف کیسے اور کب آئے؟
ج: چھٹی یا ساتویں کلاس میں تھا کہ پہلی نعت کہی، یہ نعت بچوں کے ایک رسالے ’’کھلونا‘‘ لاہور میں شائع بھی ہوئی۔ 1975ء کے لگ بھگ سید آفتاب احمد نقوی، انور جمال، شفیع ضامن، گلزار بخاری اور اعزاز احمد آذر مختلف کالجوں اور اداروں میں ٹرانسفر ہوکر آئے۔ میں ان دنوں حلقہ ارباب ذوق سیالکوٹ کا سیکرٹری تھا۔ یہ شہر اقبال کی ادبی زندگی کا سنہری دور تھا۔ نعت ان دنوں بھی کہہ رہا تھا۔ نعتیہ مشاعروں کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔ آفتاب احمد نقوی (مرحوم) نے خلوص سے مشورہ دیا کہ میں صرف نعت لکھا کروں۔ میں غزل کو ترک تو نہ کرسکا البتہ اب نعتوں کی تعداد غزلوں کی تعداد سے بڑھ گئی۔
س: آپ نثری نعت سے کیا مرادلیں گے؟
ج: آقائے محتشم کے محامد و محاسن کا دلآویز تذکرہ نثر میں بھی ممکن ہے۔ شبلی نعمانی، پیر کرم شاہ الازہری اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سیرت النبی ﷺ کی کتابوں میں نثری نعت کے ان گنت نمونے ملتے ہیں۔ تخلیقی اور جمالیاتی اوصاف کی حامل نثر کو نثری نعت کہا جائے گا۔ نعت عمومی معنوں میں درود و سلام کے پیکر شعری کا نام ہے۔ نعت کی ایک امتیازی خوبی یہ ہے کہ یہ تمام اصناف سخن میں کہی جارہی ہے اور کہی جاتی رہے گی۔ خوشبوئے توصیف کسی ایک صنف سخن کی پابند نہیں ہوسکتی۔
لب پہ ورق ورق کے درود و سلام ہے
لاریب لفظ لفظ خدا کا کلام ہے
ہر سمت ہے محامد سرکارؐ کی دھنک
قرآن ایک نعت مسلسل کا نام ہے
قرآن نثر ہے نظم نہیں، ہر دور کا نعت گو ہدایت آسمانی کی آخری کتاب سے ہی اکتساب شعور کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ اسی طرح کئی احادیث جو حضور ﷺ کے شمائل، خصائل، فضائل اور خصائص کو بیان کرتی ہیں نثری نعت کے زمرے میں آتی ہیں۔ بعض علماء کی تقاریر بھی نثری نعت کے خوبصورت نمونے ہیں۔
س: جدید اردو نعت کے موضوعاتی خدوخال کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
ج: جدید اردو نعت کا کینوس بہت وسیع ہوچکا ہے۔ جدید اردو نعت آج کے انسان کے انفرادی اور اجتماعی مسائل کے علاوہ اس کے تہذیبی، ثقافتی اور سماجی حوالوں کو بھی اعتبار کا نور عطا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مولانا احمد رضا خاں اور حفیظ تائب کی نعت اسلوب کے حوالے ہی سے نہیں، موضوعات اور ڈکشن کے حوالے سے بھی مختلف ہے۔ آج کا انسان ان گنت مسائل اور مصائب کی آگ میں جل رہا ہے۔ ہر تخلیق کو نقد و نظر کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے اس کے تہذیبی، سماجی اور ثقافتی پس منظر کا احاطہ ضرور کرنا چاہئے ورنہ کسی بھی فن پارے کا تنقیدی محاکمہ ممکن نہیں۔ آج کی نعت کو بھی عالمی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ خود ساختہ فلسفہ ہائے زندگی، بحرانوں کی شکار اولاد آدم کو امن اور سکون کی دولت عطا کرنے سے قاصر ہیں۔ دائمی امن عالم صرف حضورؐ کے درِ کرم کی عطا ہے۔
س: نعتیہ مشاعروں میں تقدیم و تاخیر کے قائل ہیں؟
ج: بالکل نہیں۔
س: قیامِ پاکستان کے بعد کی نعت گوئی کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
ج: دو قومی نظریہ قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ پاکستان اسلامی تشخص کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ یہ غلامانِ محمدؐ کا حصارِ آہنی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نعت کو فروغ ملنا ایک قدرتی امر تھا۔ موضوعات کے حوالے سے پہلے بات ہوچکی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب اہل وطن کو نئے مسائل اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا تو اپنی ثقافتی اکائی کے تحفظ کا احساس اجاگر ہوا۔ نعت کا منظر نامہ وسیع ہونے لگا۔ ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اپنی زبان ہوتی ہے اور اپنا لہجہ ہوتا ہے۔ اب زبان و ادب کے حوالے سے مزید نکھار پیدا ہوا۔ اقبال کی عظیم فکری فتوحات کی روشنی میں تخلیقِ فن نے ایک نئی کروٹ لی اور دامن شعر میں بادِ بہاری چلنے لگی۔ استغاثے کا رنگ نمایاں ہوا اور ایک صنفِ سخن کے حوالے سے نعت کا دامن مزید باثروت ہوا۔
س: ایک نعت گو کا سب سے بڑا اعزاز کیا ہے؟
ج: بارگاہ رسالت مآبؐ میں اس کی کہی ہوئی نعت کو سند جواز عطا ہوجائے۔
س: اردو نعت کی تخلیق کے ساتھ تنقید و تحقیق کے حوالے سے بھی کام ہورہا ہے،کیایہ کام کافی ہے؟
ج: کافی تو نہیں البتہ حوصلہ افزا ضرور ہے، اسے جاری رہنا چاہیے۔ نعت کو جب ایک صنفِ سخن تسلیم کرلیا گیا ہے تو اس پر فنی حوالے سے تنقید بھی ممکن ہے۔ تحقیق کا کام بھی تسلی بخش حد تک آگے بڑھ رہا ہے جو ایک خوش آئند امر ہے۔ سید صبیح رحمانی ’’نعت رنگ‘‘ کے حوالے سے گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ کا ہر شمارہ ایک حوالے کی کتاب ہے، اللہ مزید توفیق عطا فرمائے۔ یہ جریدہ بیک وقت تخلیق نعت، تنقید نعت اور تحقیق نعت کے تینوں محاذوں پر دادِ شجاعت دے رہا ہے۔ راجا رشید محمود کا ماہنامہ ’’نعت‘‘ اپنے دائرہ عمل میں روشنیاں بکھیر رہا ہے۔ شہرِ نعت، کاروانِ نعت اور دیگر پرچے نعت حضورؐ کے فروغ کے لیے وقف ہیں۔ سرور حسین نقشبندی کے رسالے ’’مدحت‘‘ کی آمد آمد ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، پروفیسر محمد اکرم رضا، پروفیسر محمد اقبال جاوید، ڈاکٹر سید محمد یحییٰ نشیط، ڈاکٹر خورشید رضوی، عزیز احسن، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، پروفیسر افضال احمد انور،ڈاکٹر ریاض مجید، انور محمود خالد، ڈاکٹر عاصی کرنالی، ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی اور ریاض احمد قادری کی خدمات آبِ زر سے لکھی جائیں گی۔ لیکن ابھی بہت سا کام باقی ہے۔
س: اردو میں ہائیکو، سانیٹ، ترائیلے اور دیگر غیر ملکی اصناف سخن میں بھی نعت کہی جارہی ہے۔ یہ نعت غزل کی ہیئت میں لکھی جانے والی نعت سے کس حد تک مختلف ہے؟
ج: ہر صنف سخن کا اپنا مزاج ہوتا ہے، ہر ملک کے لوگوں کے تخلیقی رویئے بھی مختلف ہوتے ہیں، ہر صنف سخن کا اپنا ایک آہنگ ہوتا ہے۔ ہائیکو ایک جاپانی صنف سخن ہے، جس نے ہمارے شعراء کو تیزی سے اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ اب تو نعتیہ ہائیکو، سانیٹ اور دیگر اصناف وطن عزیز کی آب و ہوا میں اجنبی نہیں لگتیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نعت میں بھی نئے نئے تجربے ہونے چاہئیں لیکن ادب و احترام کے دامن کو تھامتے ہوئے کوچہ غیر کی سیاحی کا اہتمام کیا جائے۔ جدت پسندی کہیں ایمان ہی کو نہ لے ڈوبے۔ یقینا یہ اصناف، غزل کی ہیئت میں کہی جانے والی نعت سے موضوعات اور اظہار دونوں حوالوں سے مختلف ہیں۔ غزل کی ہیئت میں کہی جانے والی نعت آج بھی مقبول ترین نعت ہے۔ غزل کالوچ اوررچائو دیگر اصناف سخن کو کہاں نصیب ہے۔ آج کا نعت نگار قطعہ نگاری کی طرف پھر سے لوٹ رہا ہے۔ نظم معریٰ میں بھی نعت کہی جارہی ہے۔ 21 ویں صدی کی آخری دہائی میں جدید تر اردو نعت کے موضوعات کیا ہوں گے اس کا اندازہ ایک حد تک 21 ویں صدی کی پہلی دہائی میں کہی جانے والی نعت سے لگایا جاسکتا ہے۔
س: نعتیہ قصائد کی روایت کو کیونکر زندہ کیا جاسکتا ہے؟
ج: زندگی کا سفر اتنی تیزی سے طے ہورہا ہے کہ شاعر شعوری طور پر بھی اختصار پسندی کے دائرے میں سمٹ رہا ہے۔ قصائد کی روایت کو زندہ کرنے کی کوئی کوشش شاید زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ادب کے افق پر بھی نئے ستارے دریافت ہوتے رہتے ہیں اور کئی کہکشائیں خلاء کی وسعتوں میں گم ہوتی رہتی ہیں، آپ قانون فطرت کے خلاف جنگ تو نہیں کرسکتے۔
س: بعض لوگوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز ہی نعت سے کیا جبکہ اکثر شعراء غزل سے نعت کی طرف آئے۔ ان دونوں طبقات کی نعتیہ شاعری میں کیا فرق ہے؟
ج: مَیں سمجھتا ہوں کہ ایک نعت گو کے لیے غزل گو ہونا بہت ضروری ہے۔ غزل کے کوچے میں جب اسے فنی پختگی حاصل ہوجائے، شعریت کی صحیح تفہیم سے آشنائی کا مرحلہ طے ہوجائے، تو پھر اسے اقلیم نعت میں داخلے کی اجازت ملنی چاہیے۔ نعت فنی محاسن اور شعری لطافت سے کیوں محروم رہے، نعت تو تمام اصنافِ سخن کی سرتاج ہے۔
س: شہر اقبال کا نعتیہ منظر نامہ آپ کو کیسا لگتا ہے؟
ج: بہت خوبصورت۔ شہر اقبال کے ماتھے کا جھومر اقبالؒ کی نعت ہے۔ اقبال کی فکری بلندیوں کی دہلیز کون عبور کرے گا۔ جس شہر کے نعتیہ منظر نامے میں اقبال بارگاہ رسالت مآبؐ میں اشکبار دکھائی دیں اس کا مقابلہ کون کرے گا۔ شجر طہرانی، اثر صہبائی، عشقی الہاشمی نے اہتمام سے نعت کہی۔ مرے کالج میں میرا پہلا سال تھا۔ ہال میں نعتیہ مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اصغر سودائی اپنی معروف نعت مہمانِ عرش پڑھ رہے تھے اور میں اشکبار آنکھوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
برستی رہتی ہیں ساون کے بادلوں کی طرح
حضورؐ! میری بھی آنکھیں مرے بڑوں کی طرح
قمر تابش، ابرار حسین ابرار، رفیق ارشد، عباس اثر، اطہر سلیمی، شفیق مشفق، آثم میرزا، ساغر جعفری، ریاست علی چودھری، سردار شاہجہان پوری، محبوب شفیع، یونس رضوی، جمیل نظامی، مرتضیٰ جعفری خار، کلیم سیالکوٹی، نیاز سیالکوٹی، شہر اقبال کے نعتیہ منظر نامے کے روشن چراغ تھے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ لمحۂ موجود میں بھی تاب اسلم، رشید آفرین، طارق اسماعیل، فاروق قمر صحرائی، افضل ایاز، منصور خاور، وحید انجم غزالی، حکیم خلیق حسین ممتاز، اعجاز عزائی، شاہد ذکی، ارشد طہرانی، وارث رضا، عابد چودھری، طالب بھٹی اور زاہد بخاری باقاعدگی سے نعت کہہ رہے ہیں۔ شہر اقبال کا نعتیہ منظر نامہ تازہ کاری کی ایک مثال ہے۔ آصف بھلی شہر اقبال کے ادبی منظر نامے میں رنگوں، روشنیوں اور خوشبوئوں کے اجتماع کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔
س: آپ کے خیال میں اردو کے چار بڑے نعت گو؟
ج: امیر مینائی، محسن کاکوروی، مولانا احمد رضا خاں اور مولانا حالی۔
س: لمحہ موجود میں جدید اردو نعت کے نمائندہ شاعر؟
ج: مظفر وارثی، اقبال کوثر، آصف ثاقب، ڈاکٹر ریاض مجید، جلیل عالی، راجا رشید محمود، خالد احمد، اقبال نجمی، منیر قصوری، طارق سلطان پوری، پروفیسر محمد اکرم رضا، عبدالغنی تائب، مشرف حسین انجم، خالد محمود نقشبندی، جان کاشمیری، واجد امیر، تنویر پھول، عابد نظامی، شاکر کنڈان، محمد شہزاد مجددی، بشیر حسین ناظم، ناصر زیدی، جسٹس (ر) محمد الیاس، مشکور حسین یاد، حفیظ الرحمن احسن، محمد محب اللہ نوری، ریاض احمد قادری، جمشید چشتی، ذکی قریشی، زاہد فخری، ناصر بشیر، بشیر احمد مسعود، سید صبیح رحمانی، سرور حسین نقشبندی، ریاض حسین زیدی۔ ممکن ہے کچھ نام فوری طور پر ذہن میں نہ آسکے ہوں۔
س: حال ہی میں اردو کے ممتاز نعت گو عبدالعزیز خالد کا انتقال ہوا ہے۔ ان کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
ج: عبدالعزیز خالد ایک بڑے شاعر تھے، مَیں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ حفیظ تائب کے بعد عبدالعزیز خالد اردو کے سب سے بڑے نعت گو تھے۔ مظفر وارثی لمحہ موجود کے سب سے بڑے نعت گو ہیں۔ اگرچہ انہوں نے بڑی حد تک گوشہ نشینی اختیار کررکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبؐ کے صدقے میں انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے۔
س: وطن عزیز کے جلتے ہوئے پیش منظر کا لمحۂ موجود کی نعت میں ردعمل کس طرح ہوا ہے؟
ج: بڑا شدید اور کربناک۔ خدا وطن عزیز کو اپنے حصارِ رحمت میں رکھے:
آندھیوں کی زد میں ہیں آقاؐ مساجد کے چراغ
کب سے محرابِ یقیں کی آبرو خطرے میں ہے
o
جدید اردو نعت کے نمائندہ شاعر
ریاض حسین چودھری سے طویل ادبی نشست
آپ نے فکر و نظر کے ان گنت گوشوں کو تحلیق کی روشنی سے منور کیا ہے
آپ کے چھ نعتیہ مجموعوں کو صدارتی سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا