ریاضؔ کے معنویت کے ذرائع- ریاض حسین چودھریؒ کی نعت نگاری
ریاض حسین چودھری ؒ ایسے شاعر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے کلام پر بات کی جائے تو سوچنا پڑ جاتا ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے کیونکہ ان کے کلام کی وسعت کا احاطہ کرنا مشکل مرحلہ ہے جب کہ ان کے مضامین نعت کے تنوع کو سمیٹنا بھی اتنا ہی دقیق کام ہے۔ ’وردِ مسلسل‘ مجموعۂ کلام ان کا تئیسواں مجموعہ ہے جب کہ معیار کلام کی بات کریں تو جب ابھی بارہ مجموعہ ہائے نعت ہی شائع ہوئے تھے تو ان میں سے چھ کو صدارتی اور سیرت ایوارڈز مل چکے تھے۔
ان کا نعتیہ کلام 23 مجموعوں پر مشتمل ہے جو ان کی ویب سائٹriaznaat.com پر موجود ہیں۔ چودھری صاحب کے نعتیہ مجموعوں کے تعارف کے لئے نامور شعرا اور ادیبوں نے قلم اٹھایا ہے اور انہیں صف اول کے جدید اردو نعت نگاروں میں ممتاز مقام کا حقدار ٹھہرایا ہے۔ کسی نے پیشوایت کا درجہ دیا ہے تو کوئی انہیں جدید اردو نعت نگاری کا امام گردانتا ہے۔ مگر یہ تو اپنی اپنی رائے ہے۔ ان کا اصل مقام تو وہ ہے جوکہ نعت خود انہیں عطا کرے گی۔
ریاض نے طویل اور بھرپور نعت نگاری کی ہے جس کے لئے وہ ’نعت مسلسل‘ کی ترکیب بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ہاں لفظ مسلسل کی معنوی تہیں ان کے پورے کلام کو محیط ہیں۔ ’’مسلسل‘‘ کا لفظ ان کے ہر مجموعہ کلام میں مختلف صورتوں میں کئی بار استعمال ہوا ہے۔ پہلے ہی مجموعے ’’زرِ معتبر‘‘ میں یہ لفظ کوئی سولہ مرتبہ آیا ہے اور نعتِ مسلسل، کیفِ مسلسل، اضطرابِ مسلسل اور فیضانِ مسلسل جیسی تراکیب استعمال کی گئی ہیں، جہاں وہ لکھتے ہیںکہ قرآن ایک مسلسل نعت ہے اور خود اسمِ محمد ﷺ ایک مسلسل نعت ہے :
ریاضؔ اسمِ محمدؐ تو خود اِک نعتِ مسلسل ہے
ترے الفاظ کیا، تیرا قلم، تیری زباں کیا ہے
یوں ریاض نے’’بھرپور‘‘ نعت لکھی اور مسلسل لکھی۔ ریاض جب نعت لکھنے لگتے ہیں تو لکھتے چلے جاتے ہیں۔ اپنے آخری مجموعہ نعت کا نام ہی’’ ورد مسلسل‘‘ رکھا ہے۔ اس سے مراد محض زود گوئی اور بسیار گوئی ہی نہیں، ’ بھرپور‘ اور ’مسلسل‘ ارتقائے معنویت کے حوالے سے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کا علامتی نظام، اوراستعاروں کا مربوط استعمال ان کے اشعار میں معانی کی تہوں کو وجود بخشتا ہے۔ مسلسل اور بھرپور ایسے ہی لب کشا الفاظ ہیں۔ ریاض نے جو طویل نعت نگاری کی، اس کی مثال ایک خود رو چشمے کی طرح ہے جو پھوٹ پڑتا ہے اور بہنے لگتا ہے اور بہتا چلا جاتا ہے اور اسے ''زم زم'' کہنے والا کوئی نہیں۔ اس طوفانی چشمے کے پیچھے کون سا تخلیقی عمل کارفرما ہے اسے ریاض ازل سے نعت گوئی کا تخلیقی تجربہ قرار دیتے ہیں جس کا اظہار ان کے تمام مجموعہ ہائے نعت میں ملتا ہے۔
’’مسلسل‘‘ کے لفظ کو وہ حسن کارانہ انداز میں استعمال کرتے ہیں :
ہر حرفِ آرزو میں مدینے کی دلکشی
ڈوبی ہوئی ہے کیفِ مسلسل میں زندگی
گھر کی فضا میں صلِّ علیٰ کے جلیں چراغ
گھر میں رہے درودِ مسلسل کی روشنی
صدقہ مرے قلم کا اتارے ہے آسماں، میرے لبوں کو چومنے آئی ہے کہکشاں
مَیں نے کہی ہے نعتِ مسلسل ابھی ابھی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جیؐ
توصیف کا منصب مرے اشکوں کو ملا ہے
الفاظ میں ہوتا نہیں اظہار مسلسل
پلکوں پہ فروزاں مرے اشکوں سے بھی آقاؐ
رہتی ہے ہوا بر سرِ پیکار مسلسل
ریاض کی نعت کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ وہ اپنی نعت کو نعت مسلسل بنانے کے لئے علامات اور استعارات کا ایک نظام وضع کر کے اظہار کے گجرے سجاتے ہیں اور یہی ان کے ہاں تہہ در تہہ معنویت کے ذرائع ہیں۔ غزل ایک صنف سخن ہے مگر ان کے ہاں یہ ایک بھرپور استعارہ ہے۔ قلم ان کے ہاں حسنِ شعریت کا وسیلہ ہے۔ تخیلات کی بہاریں ان کے اشعار میں جگنوبن کر روشن ہونے لگتی ہیں اور لب کشا الفاظ وہ تتلیاں ہیں جوتخلیق نعت کے لمحوں میں قلم سے لپٹنے لگتی ہیں۔
غزل اور نعت کا موازنہ ان کا محبوب مضمون ہے۔ ان کی جدید اردو نعت میں اس طرح کے مضامین رگِ جاں کی حیثیت رکھتے ہیںجن کا ورد مسلسل کشتِ غزل بن جاتا ہے :
تو نے ریاضؔ اذنِ خدا سے بصد خلوص
کشتِ غزل میں نعت کا موسم اگا دیا
فن شعر کے معیار اور اعلیٰ جدیدیت کے حوالے سے ریاض نے اپنی مدحت نگاری میں ’’غزل‘‘ کو فن شعریت کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
اک عجب سا کیف ملتا ہے سرِ شامِ غزل
مدحتِ خیر الوریٰ کی آرزو کرتے ہوئے
اسی طرح ریاض کے کلام میں قلم ایک مضبوط اور وسیع استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے جسے وہ اپنے دیگر استعاروں کے ساتھ گہری معنوی رعایتوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ اس سے جو حسنِ کلام وجود میں آتا ہے اس کو صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
ہر ایک لفظ کے باطن میں کہکشاں سمٹے
قلم ریاضؔ کے ہاتھوں میں چاندنی کا ہے
اب تک قلم کو چومنے آتی ہے کہکشاں
تختی کبھی لکھی تھی پیمبرؐ کے نام کی
اترا ورق پہ چاند ستاروں کا جب ہجوم
رعنائیِ خیال قلم سے لپٹ گئی
تتلی ریاض کے کلام میں ایک اور خوبصورت استعارہ ہے جو ان کے اسلوب اور معنویت کلام میں دھنک رنگ بکھیرتا ہے اورجسے وہ کمال مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے انہوں نے حسن معنی کوایسا جمال بخشا ہے جو اس سے پہلے کہیںذوق کی تسکین کا ساماں کرتے نظر نہیں آیا۔ دیکھیں تتلیوں کو کن کن معانی اور مفاہیم کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ تو ایک مسلسل نعت ہے، فردیات میں بھی اس حسن معانی کی تجلیات یوں ہی بکھری نظر آتی ہیں :
قندیل آرزو کی جلائیں گی تتلیاں
لب پر حروفِ نعت سجائیں گی تتلیاں
ہر شب میں نعت لکھتا ہوں گلشن کی تتلیو!
ہر شب طواف میرے قلم کا کیا کرو
ریاض نے خوشبو کا استعارہ بھی اسی حسنِ فن کے ساتھ اپنے سارے کلام میں استعمال کیا ہے۔ مدحت رسول ﷺ کو بھی وہ خوشبو کہتے ہیں۔ مگر دیکھیں وہ اس استعارے کو کن رعایتوں کے ساتھ استعمال کر کے اپنے کلام کو معنوی گہرائی کا سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ اس مجموعے میں بھی خوشبو کے حوالے سے حسن شعریت کے نادر نمونے موجود ہیں :
کلی نے لکھ دیا ہے نام اُنؐ کا میری تختی پر
ابد کے بعد بھی خوشبو رہے گی ہمسفر میری
ہجومِ لالہ و گل ہے مرے آنگن کے پیڑوں پر
بنی ہے پیرہن، خوشبو، ترو تازہ گلابوں کا
کتابِ آرزو کے ہر ورق پر چاندنی رکھ دوں
میں خوشبو کے لبِ اظہار پر نعتِ نبیؐ رکھ دوں
ریاض کے کلام کی بڑی خوبی جسے احمد ندیم قاسمی جیسے صاحب مقام ادیبوں نے محسوس کیا وہ ان کا حسنِ شعریت ہے جسے وہ ’’بھرپور‘‘ کے لفظ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریاض کا سارا کلام اسی جمالِ فن کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ خود ریاض اس کا اظہار ’’لب کشا‘‘ کی ترکیب سے کرتے ہیں :
حروفِ لب کشا اتریں قلم کی راجدھانی میں
رہے مصروف کلکِ التجا شام و سحر میری
لب کشائی کی کہاں جرأت غلاموں میں، حضورؐ
طشت میں آنسو سجا لائے، بہت اچھا کیا
ہاتھوں پر چراغ ایک اور بہت پیاری ترکیب ہے جسے ریاض مہارت فن کے ساتھ اپنے کلام میں لے کر آئے ہیں۔ ایک محبوب ترکیب کلک ثنا ہے جس کے لئے وہ ماہِ ِتمام کے طالب ہیں جو بھرپور نعت کے استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
التجا ہے یہ ریاضِؔ بے نوا کی، یاخدا!
ہو عطا کلکِ ثنا کو آج بھی ماہِ تمام
مَیں نے ہر ساعت کے ہاتھوں پر جلائے ہیں چراغ
ہے یہی میری نجاتِ اُخروی کا اہتمام
تازہ ہوا کے ہاتھ میں مشعل ثنا کی ہے
رہتی ہے مستقل مرے کمرے میں روشنی
ہوائے تند میں دونوں ہتھیلیوں پہ ریاضؔ
چراغِ نعت سجا کر نکل رہا ہوں مَیں
ریاض کے حسن کلام، حسن شعریت اوروفورِ اظہار کے چند نمونے پیش کئے ہیں۔ اسی طرح لحد، روز محشر، پھول، ، بچے، کہکشاں، دھنک اور ایسی ان گنت تراکیب و علامات ہیں جن سے ان کی نعتِ جدید کا وجود متشکل ہوا ہے۔ یہی حسنِ لغت ان کے 23 مجموعہ ہائے کلام کو محیط ہے۔ اور ’’ورد مسلسل‘‘ اسی فروغِ معنویت کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔