بفیضِ نعتِ رسولِ خدا ہے در آئی- خلد سخن (2009)
بفیضِ نعتِ رسولِ خدا ہے در آئی
بیان و نطق میں تخلیق کی توانائی
جو چشمِ تر سے گریں اشک وہ گہر ٹھہریں
جو حرف لکھوں عطا اُن کو ہو پذیرائی
ہر ایک لفظ میں رکھتا ہے آئنوں کا دماغ
مرے قلم کا مقدر ہے وصفِ زیبائی
چراغ رکھوں گا روشن فصیلِ گلشن پر
عطا ہوئی ہے مجھے دستِ حق سے بینائی
فقط تصورِ شہرِ رسولِ آخرؐ سے
دل و نظر کے بیاباں میں ہے بہار آئی
بدن کی خاک بھی فرسودگی پہ مائل ہے
مرے طبیب، مرے چارہ گر، مسیحائی
فقیہہِ شہر تُو فردِ عمل پہ رکھ تکیہ
بوقتِ عدل غلاموں کی ہو گی شنوائی
بھرا ہوا ہے زرِ اعتبار سے کشکول
مری انا کی بلندی کی دیکھ گہرائی
مرے وجود کے چاروں طرف جو خندق ہے
حضورؐ آپؐ کے قدمَین کی ہے رعنائی
نفس نفس میں تحمل کے پھول کس نے رکھے
ہوائے شر کو ہے زنجیر کس نے پہنائی
تلاشِ عظمتِ رفتہ کے گھپ اندھیروں میں
چمک اُٹھے کبھی خورشیدِ علم و دانائی
درود پڑھتے ہیں دیوار و در بھی ساتھ مرے
بڑے وقار کی حامل ہے میری تنہائی
حضورؐ آپؐ کا شاعر غلام ابنِ غلام
ردائے ابرِ شفاعت کا ہے تمنائی
غبارِ خلدِ مدینہ کا تاج ہے سر پر
ملی ہے ملک سخن کی، ریاضؔ، دارائی