سال کی پہلی ساعتوں میں پہلی دعا- رزق ثنا (1999)
مرے نطق و بیاں کو آج بھی رزقِ ثنا دے دے
دعا کے ہر پرندے کو پر و بالِ ہُما دے دے
درِ شاہِ اممؐ ہو اور پلکوں سے کروں سجدے
مری عمرِ رواں کو ایک ایسا رتجگا دے دے
برہنہ شاخ کو ذوقِ نمو کرکے عطا یارب
گلستانِ ادب کو شہرِ طیبہ کی ہوا دے دے
حروفِ آرزو بھی خشک ہونٹوں پر نہیں کھِلتے
مری تشنہ لبی کو اپنی رحمت کی گھٹا دے دے
میں ہر لمحے کے دامن میں سجا دوں پھول مدحت کے
لبِ افکارِ تازہ کو نیا اک ذائقہ دے دے
مذاقِ شعر میں رکھ کر گداز و سوز کی مشعل
مجھے مدحت نگاری کا سلیقہ یا خدا دے دے
مقدّر کا ستارا تا ابد روشن رہے جس میں
حصارِ مفلسی میں ہاتھ پر وہ زائچہ دے دے
ہوس کاروں نے پھر تضحیک کی مسند بچھائی ہے
مرا کشکول خالی ہے زرِ شہرِ انا دے دے
دھنک اب آسمانوں سے زمیں پر کیوں نہیں آتی
بہت ویران ہے منظر اسے رنگِ حنا دے دے
قلم کی سجدہ ریزی کو پذیرائی کی دے خلعت
چمن زارِ سخن کو خوشبوئے صلِ علیٰ دے دے
تلاشِ عافیت میں آج کا انسان ہے کب سے
بریدہ جسم پر اس کے ردائے مصطفیؐ دے دے
ریاضِؔ بے نوا کی ہر نوا کو معتبر کر کے
شبِ آخر کی ساری التجائوں کا صلہ دے دے