عذاب میں ہے مسلسل جہانِ جاں آقاؐ- رزق ثنا (1999)
عذاب میں ہے مسلسل جہانِ جاں آقاؐ
بڑی ہی تلخ کسی کی ہے داستاں آقاؐ
غبارِ شہر ہوس کی گرفت میں ہے ابھی
نصابِ عشق کی تعبیرِ گلفشاں آقاؐ
اگی ہوئی ہیں حروفِ عناد کی فصلیں
کسی بھی ذکر کے قابل نہیں زباں آقاؐ
نئے شعور کے سورج کے ساتھ صدیوں سے
بلائے ریگِ قدامت بھی ہے رواں آقاؐ
فضا میں ایک بھی جگنو نہیں کدھر جائوں
تمام منظرِ شب ہے دھواں دھواں آقاؐ
مَیں کب سے زیرِ حراست ہوں زرد لمحوں کے
ہوائے جبر، مسلسل ہے پرفشاں آقاؐ
رواں ازل سے سفر پر ہے فرطِ حیرت سے
زمانہ تیریؐ ہی جانب کشاں کشاں آقاؐ
ملے غریب پرندوں کو عافیت کی نوید
لرز رہا ہے سرِ شاخ آشیاں آقاؐ
سفر طویل ہے اور پیڑ کٹ چکے ہیں تمام
برہنہ سر مرے بچوں کو سائباں آقاؐ
شعورِ طوقِ غلامی مرا اثاثہ ہے
ہنر کوئی مرے دامن میں ہے کہاں آقاؐ
مرے خیال کی وسعت کے پر بھی جلتے ہیں
تری حدود میں شامل ہے آسماں آقاؐ
وہاں وہاں مری آنکھوں کے ہیں دیے روشن
جہاں جہاں ترےؐ قدموں کے ہیں نشاں آقاؐ
اسی لیے تو مَیں اک معتبر حوالہ ہوں
کہ دے رہا ہوں ترےؐ نام کی اذاں آقاؐ
مرا وطن ترے افکار کا صحیفہ ہے
مرے وطن کو ملے عمرِ جاوداں آقاؐ
ہر ایک موج کے ہاتھوں میں ہے قضا کا علَم
سپردِ آبِ حوادث ہیں کشتیاں آقاؐ
یہ کیا کہ آج بھی زندہ یہ دفن ہوتی ہیں
سرِ صلیب ہیں حوّا کی بیٹیاں آقاؐ
ہجومِ تشنہ لباں جاں بلب ہے صحرا میں
جوارِ گنبدِ خضرا سے چھاگلاں آقاؐ
خمارِ عشق کا سودا چکانے نکلے ہیں
مرے بدن کے مجاور سرِ جہاں آقاؐ
تلاشِ رزق سے پہلے تلاشتا ہے ریاضؔ
ترےؐ نقوشِ کفِ پا کی کہکشاں آقاؐ