عکسِ درِ رسولؐ مری چشمِ تر میں ہے- رزق ثنا (1999)
عکسِ درِ رسولؐ مری چشمِ تر میں ہے
آباد آئنوں کا سمندر نظر میں ہے
قدموں کی دھول سر پہ سجانے کے واسطے
خوشبو چراغ لے کے ازل سے سفر میں ہے
شبنم، دھنک، چنار، ہوا، چاندنی، سحاب
ہر حسنِ کائنات تری رہگذر میں ہے
طیبہ کی سمت اڑتا رہوں گا تمام عمر
وہ سیلِ ذوق و شوق مرے بال و پر میں ہے
ہر چیز رقص میں ہے جہانِ شعور کی
کیفِ دوام مدحتِ خیرالبشرؐ میں ہے
سوز و گدازِ عشقِ محمدؐ ہے جس کا نام
وہ سرمدی گلاب بدن کے کھنڈر میں ہے
اُنؐ کے قدومِ پاک کی اُترن کے نور سے
سورج میں روشنی تو اجالا قمر میں ہے
آقاؐ عطا ہو اس کی سماعت کو نغمگی
شاعر حصارِ شورِ غمِ نوحہ گر میں ہے
خورشیدِ صبح غارِ حرا سے بلند ہو
آدمؑ کی نسل ظلمتِ شب کے اثر میں ہے
آقاؐ سلامتی کی منادی ہو شہر میں
اک خوف انہدام کا دیوار و در میں ہے
کملی کی اوٹ میں اسے لے لیجئے حضورؐ
میرا چراغ تیز ہوا کے نگر میں ہے
لِلّٰہ ہماری لیجئے آکر خبر حضورؐ
ساحل سے دور کب سے سفینہ بھنور میں ہے
شہرِ سخن میں اسمِ نبیؐ کی ہے چاندنی
ورنہ کمال کیا مرے دستِ ہنر میں ہے
سب کچھ عطا کیا ہے خدا نے حضورؐ کو
سب کچھ ریاضؔ دامنِ خیرالبشرؐ میں ہے