چمن زارِ ثنائے مصطفےٰؐ میں ہم بھی رہتے ہیں- رزق ثنا (1999)
چمن زارِ ثنائے مصطفیؐ میں ہم بھی رہتے ہیں
برنگِ شعر دامانِ صبا میں ہم بھی رہتے ہیں
مہکتے ہیں در و دیوار بھی ذکرِ محمدؐ سے
ہوائے نور و نکہت کی ردا میں ہم بھی رہتے ہیں
مقامِ ارفع و اعلیٰ پہ فائز ہے قلم اپنا
حریمِ مدحتِ خیرالوریٰ میں ہم بھی رہتے ہیں
برہنہ سر سہی اس ریگ زارِ زندگانی میں
ولیکن خیمۂ صلِّ علیٰ میں ہم بھی رہتے ہیں
اڑائے پھرتی ہے ہم کو زمینوں آسمانوں میں
تلاشِ رزقِ حبِّ مصطفیؐ میں ہم بھی رہتے ہیں
شمیمِ خلد کے جھونکو! درِ اقدس پہ جھک جھک کر
یہ کہنا یانبیؐ! کرب و بلا میں ہم بھی رہتے ہیں
غلاموں کا ٹھکانہ ہے حضورؐ اشکوں کے دامن میں
ہر اک مفلس کی سہمی سی دعا میں ہم بھی رہتے ہیں
کرم گستر رہے دستِ کرم آقاؐ غلاموں پر
پسِ مژگاں حروفِ التجا میں ہم بھی رہتے ہیں
درِ معبود پر آقاؐ جبیں رہتی ہے ہر لحظہ
بڑے ہی عجز سے شہرِ انا میں ہم بھی رہتے ہیں
بہت خوش بخت ہو اے ساکنانِ وادیٔ بطحا
مگر کب سے مدینے کی فضا میں ہم بھی رہتے ہیں
جلے ہونٹوں پہ اُنؐ کا اسمِ رحمت ہی برستا ہے
بفیضِ نعت ہی کالی گھٹا میں ہم بھی رہتے ہیں
تجلی ہی تجلی ہے اُنہیؐ کی زلفِ اطہر کی
جو سوچو تو کسی غارِ حرا میں ہم بھی رہتے ہیں
رسولِ محتشم، اے والیٔ کون و مکاںؐ نظرے
کہ مدت سے غبارِ ابتلا میں ہم بھی رہتے ہیں
جہاں پر مندمل ناسور ہوتے ہیں جبینوں کے
مدینے کے اسی دارالشفا میں ہم بھی رہتے ہیں
ازل سے ہے ہمارا تو سبھی کچھ اُنؐ کی چوکھٹ پر
ازل سے کیفِ تسلیم و رضا میں ہم بھی رہتے ہیں
ریاضؔ اپنی ہتھیلی پر یہ سورج ہیں مسائل کے
درِ عالی پہ ہر جھکتی صدا میں ہم بھی رہتے ہیں