ریاضؔ کھول دو رختِ سفر مدینے میں- رزق ثنا (1999)

ریاضؔ کھول دو رختِ سفر مدینے میں
سفر تمام ہوا مختصر مدینے میں

یہ اضطراب بھی سوئِ ادب میں شامل ہے
ادب بہت ہی ادب چشمِ تر مدینے میں

خبر نہیں کہ اجل کس گھڑی چلی آئے
نوائے ہجر، مسلسل اتر مدینے میں

خدا کرے کہ مَیں اڑنے کا بھول جائوں ہنر
بدن سے جھڑنے لگیں بال و پر مدینے میں

مَیں پڑھ رہا ہوں نئے دن کی روشنی کا نصاب
کھلی ہوئی ہے کتابِ سحر مدینے میں

جواز ڈھونڈتے پھرتے ہیں اپنے ہونے کا
نیاز و عجز سے شمس و قمر مدینے میں

تمام عمر صبا گھر کے آس پاس رہی
تمام عمر ہوئی ہے بَسَر مدینے میں

اسے حضورؐ کی رحمت کا فیصلہ لکھو
مرا وجودِ قلمزد ہے گر مدینے میں

رہینِ منتِ اہلِ سفر نہیں ہوں گا
کہ جارہی ہے ہر اک رہگذر مدینے میں

قدم قدم پہ مصوَّر ہوں رتجگوں کے سجود
خدا ملے گا تجھے، بے خبر! مدینے میں

مرے چمن میں بھی شاداب ساعتوں کا ہجوم
شجر نہیں ہے کوئی بے ثمر مدینے میں

عجیب شخص ہے اندر کا آدمی بھی حضورؐ
مچل رہا ہے کہ ہو گھر کا گھر مدینے میں

مَیں اپنی رام کہانی سنانے کیا بیٹھوں
حصارِ خوف ہوا بے اثر مدینے میں

زہے نصیب مجھے ہم نفس خیال کریں
سگانِ کوئے مدینہ اگر مدینے میں

مرے سخن کے کبوتر بھی اُنؐ کے روضے کا
طواف کرتے رہے رات بھر مدینے میں

نیاز و عجز کی خلعت ضرور پائے گی
تلاشِ رزقِ انا پھر اتر مدینے میں

بس ایک حرفِ حضوری پسِ دعا روشن
ازل سے دیکھا ہے مَیں نے جدھر مدینے میں

مرا سلام وطن کی ہوائوں سے کہنا
چلے بھی جائو مجھے چھوڑ کر مدینے میں

ریاضؔ جیسا نکما، فضول سا اک شخص
بفیضِ نعت ہوا معتبر مدینے میں