ترتیبِ ’’مطافِ نعت‘‘- کلیات نعت

ترتیبِ ’’مطافِ نعت‘‘

حریمِ دیدہ ودل میں چراغاں ریاض حسین چودھری

گلشنِ نعت کا گلاب گہر ملسیانی

زرِ سخن بھی نہیں، مصرعۂ ہنر بھی نہیں

حمد

میرے پیارے خالق! میرا آج کا دن بھی تیرے نام

التماس

شانِ ثنا خوانِ رسولؐ

شانِ مدحت نگارِ رسولؐ

مجھے دے رکھا ہے خدا نے جو وہ مرے لئے کوئی کم نہیں

جو چاہتا ہوں مری بات میں اثر بھی نہیں

دعا ہے تا دمِ آخر رہوں جا کر مدینے میں

چلے ہوائے مدینہ بہار آ جائے

راحتِ قلب و نظر، صبح و مسا یاد آئے

پلکوں پہ اُنؐ کی یاد کا میلہ لگا رہا

شاخِ جاں پر نعت کی کلیاں کھلیں شام و سحر

صبح و مسا نظر میں درِ مصطفیٰ ؐرہے

نعت کی رت میں شرابور فضا لگتی ہے

سوزِ نفَس کے جذبِ دروں میں جلوں گا کیا

راہِ وفا سے کوچۂ دلبرؐ قریب ہے

جہانِ نعت میں تخریب و شر نہیں ہوتا

زرِ ثنائے نبیؐ کاسۂ سخن میں ہے

دنیا کی آرزو ہے نہ نمود کی طلب ہے

حجاب اٹھا نہیں نگہِ یقیں کی آزمایش ہے

یہ بیقراریٔ ہجراں کا آخری دن ہے

آتا ہے کون چھوڑ کے محبوبؐ کی گلی

مدینہ پاک جانے کی خواہش

مقّدر جگمگایا والیِ بطحاؐ کی چوکھٹ پر

جب روح تڑپنے لگتی ہے عشاق مدینے جاتے ہیں

میری اوقات کیا پوچھتے ہو مین ہوں کاشاکِ دنیا کا سایہ

درِ حبیبؐ سے لے لو حیاتِ نو اب بھی

اُنہیؐ کے در پہ گرو جس طرح سے ہو اب بھی

دعائے آخر شب بن کے چمکی لو غلامی کی

مدینے کے پہاڑو سنگ ریزہ ہوں ندامت کا

بصیرتِ دلِ مضطر بنی مری آنکھیں

ماں باپ میرے آپؐ پر قربان یا نبیؐ

حضور نگہِ کرم

بے قراری میں تڑپنا دل کو کٹتے دیکھنا

نگاہوں میں مری روضے کا منظر ہو دمِ آخر

نہیں لگتا مرا اب دل کہیں بھی یا رسول اللہؐ

ترے پاس جب ہو جانا ترے پاک در سے جاؤں

اے شاعرِ محمد! ( ﷺ)

لہو ہے قلبِ حزیں، آنکھ میں نمی ہے بہت

قبر میں لے کے جاؤں اگر میں اپنے ماتھے پہ خاکِ مدینہ

مَیں مطمٔن ہوں میرا خدا ساتھ ہے مرے

آرزوئے شوق کے سب کو دکھاتا ہوں گلاب

مجھ سے درِ رسولؐ کی جنت نہ پوچھئے

استقامت

جو انؐ کی یاد میں محو کتاب لگتے ہیں

تتلیاں، پھول، ہوائیں، پتے

میں کھو جاؤں یا مصطفیٰؐ کہتے کہتے

اس کا رتبہ ورائے بیاں ہے جو بھی پروانۂ مصطفیٰؐ ہے

رشتہ نہ پھر رہے کوئی سر کا وجود سے

ہم عاصیوں کو رکھتے ہیں مستِ سرور آپؐ

واہ کیا بخت ہیں تیرے اے بیابانِ عرب

سلام بحضور سرورِ کونینؐ

حضورؐ آپ کی باندی فشارِ غم میں ہے

صحبتِ یزداں

تعلقات کی بنیاد

ابرِ فیضانِ کرم چھایا ہے

پلکوں میں لے کے التجا قدمینِ پاک میں

دل میں دمک رہی ہیں مدینے کی وادیاں

نعت پڑھتی رہتی ہیں خوشبوئیں مدینے کی

میں دھوپ میں بھی خنک بوستان جیسا ہوں

ہر گھڑی امتحاں میں رہتا ہوں

نعت کہنا تو پھولوں سے سیکھے کوئی

چشمۂ تسکیں