زرِ سخن بھی نہیں، مصرعِ ہنر بھی نہیں- کلیات نعت
تخلیقی مزاج تو ابتدائی ماحول کی عطا ہوتی ہے۔ میرے والد مکرم کاتب القرآن تھے اور دینی کتب اور رسائل کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے۔ فارسی زبان پر عبور تھا اور علامہ اقبالؒ کا فارسی کلام خصوصاً پسند فرماتے، میں ان کی نماز تہجد کا گواہ ہوں جب وہ دعا میں گریہ کے ساتھ ساقی نامہ کے دعائیہ اشعار پڑھا کرتے۔ انہیں کے شب و روز میرے شعری مزاج کا تعین کر گئے۔ میری والدہ مرحومہ خوش ذوق تھیں۔ مجھے قرآن مجید کی سورتیں اور اعلیٰ حضرت کی نعتیں زبانی یاد کراتیں، مسجد میں ساتھ لے جاتیں جہاں شروع بچپن سے ہی میں مائیک سنبھال لیتا اور ذوق سے نعت پڑھتا۔ آلومہار شریف سے خلیفہ محمد سعید صاحب اکثر والد صاحب سے ملنے گھر تشریف لاتے اور مجھے بہت پیار کرتے۔ فرمایا کرتے: پڑھائی پر سب سے زیادہ توجہ ضروری ہے۔شعر اور نعت کا شعور ضروری ہے مگر پڑھائی کو مقدم رکھیں۔
گھر میں ادبی ماحول اور کالج میں اساتذہ کی تربیت اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے اچھے شعر کی پہچان ضرور تھی۔ بالخصوص جناب اصغر سودائی اور جناب حفیظ صدیقی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا جبکہ میرے بزرگ دوست ظفر اقبال فیضی بہت اچھا شعر کہتے۔ وہ پروفیسر تجمل علی راٹھور کے شاگردوں میں سے تھے۔ انہیں بہت یاد کرتے۔ میری شامیں انہیں کے ساتھ گذرتیں۔ شعری لطافت کا ادراک مجھے ان کی صحبت سے ملا۔ شاعر تو وہ تھے ہی مگر نقاد زیادہ تھے۔ جب ایم اے انگلش کے لئے لاہور آیا تو ان کے ساتھ ملاقات کم ہو گئی مگر یہاں شہرت بخاری سے رابطہ بہت کام آیا۔کبھی مشاعرہ ہوتا تو ضرور لکھ لیتا، پاک فضائیہ میں گیا تومیری تعیناتی کوہاٹ میں ہوئی۔ وہاںفیروز ناطق سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت لکھتے تھے اور اچھا لکھتے تھے اور انہی کے ساتھ جناب ایوب صابر کے ساتھ میونسپل لائیبریری کوہاٹ میں نشستیں ہونے لگیں، پھر یہ دائرہ وسیع ہوتا گیا۔اس زمانے میں جناب حامد سروش بھی کوہاٹ میں تھے اور جناب رشید قیصرانی کا تبادلہ بھی کوہاٹ ہو گیا تھا۔انجم یوسف زئی اورجناب عزیز اختر وارثی بھی وہیں آ جاتے اور یوں کوہاٹ میں اردو شاعری پر بہار آنے لگی اور میرے شعری ذوق کی پرورش بھی ہونے لگی۔
یہ محفلیں اس وقت دوچند ہو گئیں جب جناب مظفر علی سیّد بھی کوہاٹ تعینات ہو گئے۔ پھر یہ نشستیں سیّد صاحب کے ہاں ہونے لگیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ جاتے تو اٹھنا بھول جاتے، رات سہ پہر کہیں نشست برخاست ہوتی۔ وہ ایک بہتا ہوا سمندر تھے، سب کو ساتھ بہا لے جاتے۔انگریزی اور اردو ادب کی تاریخ، تنقید، دونوں کا تقابلی جائزہ اور عصرِ حاضر کی ابحاث پر ان کی نگاہ بہت گہری تھی۔ ہم اپنے اپنے سوالات اٹھاتے رہتے اور جنابِ سیّد اپنا وسیع مطالعہ چائے میں گھول گھول کر ہمیں پلاتے رہتے۔ ان کے پاس بیٹھ کر اس زمانے کے صفِ اول کے ادیب اور شعرا کے ان کے ساتھ روابط اور کسبِ فیض کا پتہ بھی چلتا۔ یقیناً جناب سیّد انتہائی معتبر اور محترم ادبی مقام کے مالک تھے، ان کے تبحر علمی کا احاطہ بہت مشکل ہے۔جب کوہاٹ سے میرا تبادلہ ہوا تو سیّد صاحب کی صحبت سے محرومی کا مجھے بہت قلقتھا، یقیناً وہ بھی ناخوش تھے۔میری غزل کو بہت سراہا کرتے تھے جس کا علم مجھے ان سینئر افسران کی زبانی ہوتا جن کے ساتھ وہ میرے بارے میں اظہار خیال کیا کرتے۔کوہاٹ سے میرے کیڈٹ کالج پٹارو تبادلہ کے بعد یہ سب قصۂ پارینہ ہو گیا۔ایک جنت تھی جو چھن گئی۔ زندگی میں پھر ایسی صحبت اور ادبی نشستیں کبھی میسر نہ آئیں۔اور وہی زندگی بھر کے لئے کام کر گئیں۔کیڈت کالج پٹارو میں مختار صدیقی تھے مگر ان کے ساتھ حسبِ خواہش ادبی نشستیں نہ ہو سکیں البتہ ذوق کی بات کرنے کے لئے ان کا وہاں ہونا غنیمت تھا۔ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں میرا تبادلہ پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں ہوا تو کچھ رابطے بحال ہوئے، چند مشاعروں میں شرکت کا اتفاق ہوا جہاں نئے لوگوں سے ملاقات ہوئی اور جناب سیّد کیساتھ بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، مگر کوہاٹ جیسی ادبی محفلیں خواب ہی رہیں۔
پاک فضائیہ سے ریٹائر ہونے کے بعد1999ء میں جب منہاج القرآن انٹرنیشنل کے فرید ملت ریسرچ اِنسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کی ذمہ داری سنبھالی تو یہاں میری ملاقات جناب ریاضؔ حسین چودھری سے ہوئی جو اِنسٹی ٹیوٹ کے شعبہ ادبیات کے صدر تھے۔ ملاقات کیا تھی، ذوقِ شعر کو مہمیز لگ گئی۔ ادھر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کی نجی محافلِ نعت میں شرکت کا موقعہ ملا تو جیسے بھانبڑ مچ گیا۔ بھوبھل میں دبی چنگاری کو صرف ایک نگاہِ سخا نے شعلۂ جواّلہ بنا دیا۔ اب تڑپ بھی تھی، ذوق بھی تھا اور صحبت بھی لیکن سب سرِ مژگاں رہا۔ جب اپنے اندر جھانکتا تو نعت لکھنے کا یارا نہ تھا، میں اپنی اوقات کبھی نہیں بھولتا۔
جناب ریاضؔ حسین چودھری کی نعت پڑھتا، ان کے ساتھ بیٹھتا، انہیں سنتا اور اندر ہی اندر ایک حسرت دبوچ لیتی۔ سوچتا کہ سرکارِ دوعالم ﷺ کی شان میں نعت کیسے لکھوں۔ قلم اٹھاتا تو عجز و ندامت سے کانپ جاتا۔شرمندگی لرزہ بن کر جسم میں دوڑنے لگتی۔ جنابِ ریاض بہت حوصلہ دلاتے اور کچھ لکھنے کے لئے آمادہ کرتے رہتے مگر سب بے سود ثابت ہوتا۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے مجھے جو ذمہ داریاں تفویض کی ہوئی تھیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے تو 24 گھنٹے کا دن چھوٹا تھا۔شاعری کے لئے وقت کہاں؟ تب تو ریاض صاحب سے بھی رابطہ کم رہنے لگا۔ پھر ایک روز چشمِ تر میں یوں ڈوبا کہ لکھ دیا:
ضیاع عمر کے گو مرتکب ہوئے ہو عزیزؔ
درِ حبیبؐ سے لے لو حیاتِ نو اب بھی
جب حیاتِ نو کی بھیک مانگی تودرِ حبیبؐ سے بلاوا آگیا اور تسکینِ قلب کا ساماں بھی ہونے لگا۔ کبھی کبھی نعت لکھنے لگا مگر مَیں طے شدہ ترجیحات میں ردوبدل کبھی نہیں کرتا۔ڈاکٹر صاحب کی طرف سے دی گئی ذمہ داریوں کو ہمیشہ اولیت دیتا ہوں۔ طبیعت موزوں ہوتی تو گنگنا لیتا مگر شعر گوئی کے لئیایک لمحہ بھی میسر نہ تھا۔اس طرح پچھلے 14 برسوں میں تھوڑا تھوڑا جو کبھی لکھا مجلہ منہاج القرآن میں چھپتا رہا اور اب ایک مختصر سا مجموعہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اس دوران یہ بھی ہوا کہ میں تو عبد العزیز تھا اور ہوں۔ یہی میرا نام ہے اور میں ہمیشہ اپنایہی نام استعمال کرتا ہوں اور کوئی سابقہ لاحقہ استعمال نہیں کرتا، مگر شیخ الاسلام مدظلہ نے فرمایا کہ اب آپ عبد العزیز نہیں بلکہ شیخ عبد العزیز دباغ ہیں۔ مَیں دیر تک اپنی اس عرضداشت پر مصر رہا اور اب بھی ہوںکہ مَیں عبد العزیز ہی ہوں مگر اکثر جگہوں پر وہ مجھے شیخ عبدا لعزیز دباغ ہی لکھتے، اور رسمی میٹنگز میں بھی اسے میرا آفیشل نام کہتے، حتیٰ کہ کئی ڈرافٹ جو انہیں بیرون ملک اپنے نام سے روانہ کرتا وہ ان پر شیخ دباغ لکھ کر واپس بھیج دیتے۔ تاہم مَیں عبد العزیز ہی ہوں اور لکھنے میں شیخ الاسلام مدظلہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے شیخ عبدا لعزیز دباغ لکھتا ہوں۔مالک کے حضورشرمندہ رہنا اچھا لگتا ہے اور یہ نسبت دروں بینی کی وجہ سے مجھے شرمندگی میں ڈھانپے رکھتی ہے۔
شیخ الاسلام مدظلہ کا ذوقِ شعر کسے معلوم نہیں لیکن شائد انہیں پتہ بھی نہ ہو کہ مَیں شعر کہہ لیتا ہوں اور میں نے کوئی نعتیہ کلام بھی لکھا ہے۔ نہ مَیں انہیں یہ دکھانے کی جسارت کر سکا ہوں۔ جناب ریاض حسین چودھری اردو نعت کا ایک بڑا نام ہیں۔ فنِ نعت نگاری میں انہوں نے جو تجربے کئے ہیں اس حوالے سے وہ مقامِ امامت پر فائز ہیں کیونکہ کچھ تجربات تو جناب حفیظ تائب کے حصے میں بھی نہیں آئے۔ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ میرے بہت قریبی دوست ہیں اس لئے تعریف کرتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے شعری تجربوں سے مجھے کامل آگاہی ہے۔
اس لحاظ سے یہ میری خوش بختی ہے اور اس پر مجھے فخر ہے کہ جناب ریاضؔ حسین چودھری جیسے پختہ، استادِ فن اور صفِ اول کے نعت نگار سے مجھے قربت حاصل رہی۔ جناب ضیاء نیرؔ مجھے اکثر چوپال میں راجا رشید صاحب مرحوم کے زیر انتظام ہونے والے ہفتہ وار منعقدہ مشاعروں میں شرکت پر مجبور کیا کرتے۔ ایک مرتبہ میں نے چار نعتیں لکھ کر ان کے حوالے کر دیں اور گذارش کی کہ میری طرف سے چارمشاعرے خود پڑھ دیں۔ چنانچہ ایک دو مرتبہ تو مجھے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئے اور باقی نعتیں انہوں نے خود ہی جا کر پڑھیں، میری مصروفیات ہی ایسی ہیں۔ یہ باتیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ واضح کرسکوں کہ تخلیقی کاوشوں کے لئے محرکات کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور مطالعہ اور ماحول کی وجہ سے طبع موزوں از خود تخلیقی تجربے پر کیسے تیار ہو جاتی ہے جبکہ تحقیقی ذمہ داریاں ضرور آڑے آ جاتی ہیں۔
’مطافِ نعت‘ کیا ہے اور کیا نہیں، یہ مَیں کیسے جان سکتا ہوں! بارگاہِ رسالت ﷺ میں ایک حقیر غلام کی طرف سے عجز و انکساری اور ندامت و شرمساری سے پھوٹنے والی وہ ٹوٹی پھوٹی کاوش ہے جو ھدیۃً اس لئے لکھی گئی ہے کہ درِ حبیب ﷺ سے نسبت مل جائے، قربت کا کوئی طریقہ بن جائے، پھر عرض کروں، یا رسول اللہ! اپنے ساتھ زیادتیوں کا انبار لگانے والا غلام حاضر ہے، توبہ کی قبولیت کے لئے آپؐ کی رحمت کا طلبگار ہے، رحمت فرما دیجئے کہ رب کریم توبہ قبول فرما لیں اور میں عجز و تشکر میں لپٹا بارگاہِ ایزدی میں سجدۂ طویل کی سعادت حاصل کرتے اس کے روبرو پیش ہو جاؤں۔ پھر وہ مالک مجھے اپنی بخشش سے نواز دے۔ قبر ہو یا روزِ محشر، نبیٔ رحمتؐ کی نگاہِ کرم مل جائے اور کام بن جائے۔ حصولِ رضائے نبیؐ کا یہی غم میری زندگی ہے اور ’مطافِ نعت‘ اس غم کی حسرتِ اظہار کا نشان۔
لاہور شیخ عبد العزیز دباّغ
31 دسمبر 2012ء