راحتِ قلب و نظر، صبح و مسا یاد آئے- کلیات نعت
راحتِ قلب و نظر، صبح و مسا یاد آئے
مجھ کو ہر لمحہ مدینے کی فضا یاد آئے
کبھی قدمینِ مبارک میں بٹھائے رکھنا
کبھی چوکھٹ پہ غلامی کی عطا یاد آئے
اُنؐ کو معلوم ہے دن رات تڑپنا میرا
وہ بلا لیں گے مجھے، اُنؐ کی وفا یاد آئے
جا کے جو عرض کرے روضۂ انور پہ سلام
جالیاں چوم کے لہراتی ہوا یاد آئے
جب رہے لغزشِ پا، بن کے چبھن آنکھوں میں
عفوِ سرکارِ دو عالمؐ کی ردا یاد آئے
کون ہو سکتا ہے مجھ سا تہی دامن کوئی
ہاں مگر اُنؐ کی بہت خوئے سخا یاد آئے
دیکھتا ہوں جو میں اعمال کا کشکول اپنا
اُنؐ کی خیراتِ کرم، جود و عطا یاد آئے
وہ جو اک بار مری روح میں رم جھم اتری
ہاں وہی نگہِ کرم صلِّ علیٰ یاد آئے
جس کو سننے کے لئے میری سماعت ترسے
مجھ کو وہ حسنِ لحن، وحیٔ خدا یاد آئے
جس پہ سرکارؐ نے دی کلمۂ حق کی دعوت
ہاں وہی عرشِ ھدیٰ، کوہِ صفا یاد آئے
چاند بن کر جو مرے دھیان کو اجلا کر دے
ایک بس انؐ کی رضا بن کے دعا یاد آئے
دل نہاں خانۂ انوارِ حرم بن جائے
جب مجھے گنبد خضریٰ کی ضیاء یاد آئے
در و دیوار حرم چھو کے ملا دل کو سکوں
اور اُس لمس کی تاثیرِ شفاء یاد آئے
کربِ دنیا سے رہائی کی ملی تھی نعمت
آپؐ کے قُرب میں رہنے کا مزا یاد آئے
روزِ محشر کا مسافر بھی، تہی دست بھی تھا
جاتے جاتے در سرکارؐ ملا، یاد آئے
راہ میں فقرِ فراواں کی گھنی چھاؤں ہے
اور شفاعت کی چلی ٹھنڈی ہوا، یاد آئے
انؐ کی یادوں میں ہی بھیگا ہوا رہتا ہوں عزیزؔ
جو برستی رہے رحمت کی گھٹا یاد آئے
*