شاخِ جاں پر نعت کی کلیاں کھلیں شام و سحر- کلیات نعت
شاخِ جاں پر نعت کی کلیاں کھلیں شام و سحر
روح کی پہنائیاں مہکی رہیں شام و سحر
وہ ہجومِ نوریاں ہے تا فلک محوِ درود
جو طوافِ گنبدِ خضریٰ کریں شام و سحر
پھر خبر آئے بلایا ہے مجھے سرکارؐ نے
پھر رہیں بیتاب دل کی دھڑکنیں شام و سحر
چلتی رہتی ہیں مدینے کی ہوائیں رات دن
بانٹتی رہتی ہیں انؐ کی رحمتیں شام و سحر
بند ہو جائیں زمانے پر مرے سمع و بصر
یثربِ دل پر مگر یہ وا رہیں شام و سحر
ہے اماں کی ایک صورت آج کے آشوب میں
ہوں مدینے کی میسر قربتیں شام و سحر
ضو فشاں جب تک رہیں بستی میں انوارِ درود
جھومتی رہتی ہیں ہر سو برکتیں شام و سحر
وجد کی کیفیتیں، یہ لذتیں، سوز و سرور
ایک حرفِ نعت کی ہیں رونقیں شام و سحر
جن کے نغماتِ ثناء میں گم ہے بزمِ کائنات
لذتِ ایماں ہیں ان کی محفلیں شام و سحر
یہ تو سارا شیخ کی چشمِ کرم کا فیض ہے
روح کو ملتی ہیں ان کی صحبتیں شام و سحر
جب امڈ آتا ہے دریا دل میں انؐ کی یاد کا
گھومتا پھرتا ہوں پھر میں ہجر میں شام و سحر
نقش میری جاں پہ ہے صبحِ مدینہ کی گھڑی
پھوٹتی ہیں اس سے روشن ساعتیں شام و سحر
میرے ہونٹوں پر ہوئے روشن ستایش کے گلاب
پھر مرے حرف و سخن مہکے رہیں شام و سحر
بو لہَب کے ہاتھ ٹوٹیں آج بھی میرے خدا
بو لہَب پر آج بھی شعلے گریں شام و سحر
آج بھی ابن ابیٔ٭ پر قہر ٹوٹے رات دن
اس کی پھر تذلیل کے دوزخ جلیں شام و سحر
ابرہہ نکلا ہے بن کر آج گستاخِ رسول
آج بھی ان پر ابابیلیں اڑیں شام و سحر
جانے کیوں انسان نے پہنی ہوئی ہے تیرگی
ہر طرف روشن ہیں تیری آیتیں شام و سحر
شکر کے رنگوں سے کیوں محروم ہے صحنِ چمن
جب برستی ہیں زمیں پر نعمتیں شام و سحر
یہ نہ ہوں تو چاٹ جائے کرب کا موسم مجھے
میری آنکھوں میں دیئے روشن رہیں شام و سحر
*