نعت کی رُت میں شرابور فضا لگتی ہے- کلیات نعت

نعت کی رُت میں شرابور فضا لگتی ہے
خوب برسے گی، مدینے کی گھٹا لگتی ہے

ہے مجھے شام ڈھلے آپؐ کے در کی خواہش
قبر کی رات شبِ بزمِ ثناء لگتی ہے

روح فرسا ہے بہت مکر و فریبِ دنیا
رغبتِ نفس مجھے ایک سزا لگتی ہے

اس سے آنکھوں میں امڈ آتے ہیں ساون بھادوں
یاد عصیاں مجھے پچھم کی ہوا لگتی ہے

یہ نہیں غم کی نمی، ہے یہ تمنا کا گداز
چشمِ نمناک میں لرزاں جو دعا لگتی ہے

اِس پہ قربان، یہ ہے اُنؐ کی تمنا کا فروغ
یہ تمنا مجھے رحمت کی ردا لگتی ہے

سر مرا رہتا ہے دہلیزِ پیمبرؐ پہ جھکا
سوچ بھی صبحِ مدینہ کی ضیاء لگتی ہے

یاد کرتی ہیں بہت آپؐ کو آنکھیں آقاؐ
یہ چراغاں مجھے تقریبِ لقاء لگتی ہے

مَیں ہوں اور دید کی لذت کا سحر ہے آقاؐ
یادِ نظارہ بہت دید نما لگتی ہے

آپؐ کی یاد میں بیتاب ہے دل بھی میرا
اس کی دھڑکن مری آہوں کی صدا لگتی ہے

یاد جب پھیلنے لگتی ہے رگوں میں میری
چاندنی میرے بدن کی یہ قبا لگتی ہے

ہجر ہے یاد خدا، حب نبیؐ کی برکھا
جب برستی ہے تو تسلیم و رضا لگتی ہے

محفلِ ذکر بپا رہتی ہے سینے میں عزیزؔ
ہر گھڑی دل کی زباں محوِ دعا لگتی ہے

*

کھلا درد کا دیچہ مرے گلشنِ نہاں پر
کِھلا شبنمی ہوا سے گلِ آرزو زباں پر
مری ایک ہی دعا ہے اے قبول کرنے والے
مجھے حشر تک بٹھا دے دہلیزِ مہرباںؐ پر

*