یہ بیقراریٔ ہجراں کا آخری دن ہے- کلیات نعت
یہ بیقراریٔ ہجراں کا آخری دن ہے
متاعِ عالمِ امکاں کا آخری دن ہے
اٹھو کہ بزمِ گلستاں کا آخری دن ہے
یہاں سے دور، اور اُنؐ کے قریب ہو جائیں
یہ سجدۂ دلِ لرزاں کا آخری دن ہے
متاعِ حاصلِ ایماں کی خیر ہو یا رب
سنا ہے معرکۂ جاں کا آخری دن ہے
ذرا سی دیر میں لے جائیں گے مجھے آ کر
خوشا کہ بندشِ زنداں کا آخری دن ہے
ہوائے نفس، انا، شیطنت، فساد، فجور
امورِ مردمِ ناداں کا آخری دن ہے
پھر اس کے بعد تو ہر بات روبرو ہو گی
یہ سودکاریِ پنہاں کا آخری دن ہے
گناہگار بہت ہوں، معاف کر دیجے
کہ شرمساریٔ عصیاں کا آخری دن ہے
کسی طرح سے درِ مصطفیٰ پہ جا پہنچوں
کہ آج عمرِ گریزاں کا آخری دن ہے
حضورؐ سایۂ رحمت، حضورؐ چشمِ کرم
یہ عرضِ حالِ پشیماں کا آخری دن ہے
نگاہِ مرشدِ کامل1؎ بچا گئی مجھ کو
فریب کاریٔ شیطاں کا آخری دن ہے
لحد میں طے ہے ملاقات کل عزیزؔ اُن سے
یہ بیقراریٔ ہجراں کا آخری دن ہے
*