دعائے آخرِ شب بن کے چمکی لو غلامی کی- کلیات نعت
دعائے آخرِ شب بن کے چمکی لو غلامی کی
شبِ وجدان میں اتری تجلی آشنائی کی
مجھے خوشبو کا جھونکا لے گیا سرکارؐ کے در پر
سلامِ شوق کے پھولوں نے میری رہنمائی کی
فضا میں رقص کرتا، تیرتا تھا طوفِ گنبد میں
پرِ جبریل نے قلبِ حزیں کی پر کشائی کی
درِ محبوبؐ پر توبہ نشینی شرطِ اوّل ہے
سند پہلے سے دے رکھی ہے مولیٰ نے معافی کی
ندامت میں وہاں آنکھوں کے قلزم لے کے پہنچا تھا
شفیعِ محتشمؐ نے لاج رکھ لی اپنے عاصی کی
یہاںدن رات مولیٰ خوں کی ہولی کھیلی جاتی ہے
رہے آقا اماں میں سا لمیت میری دھرتی کی
جو رہبر ہے، لٹیرا ہے! دہائی! یا رسول اللہ!
سزا دی جاتی ہے انساں کو اس کی بے گناہی کی
بھنور میں پھنس گئی امت کی ناؤ یا رسول اللہ!
کرم آقاؐ! کوئی صورت بنے مشکل کشائی کی
یقیں یہ ہے کسی دن تو طلوعِ صبحِ نو ہو گی
ہمارے سر پہ چھاؤں ہے تجلی والی کملی کی
کِھلی ہیں نور کی کرنیں، ہیں مہکی نعت کی کلیاں
ترانے ہیں درودوں کے، یہ محفل ہے سلامی کی
نگاہ شوق ٹھہری سبز گنبد کے نظارے پر
مری تشنہ نگاہی نے جنوں کی سرفرازی کی
مرے آنگن میں پتوں پر ہوئے تحریر نام ان کے
کہ جن سے مشعلیں روشن ہوئیں ساری خدائی کی
کہا دربان سے میں نے ’’محمد! التماس‘‘، اُس نے
بٹھایا مجھ کو چوکھٹ پر جو مَیں نے اُس سے زاری کی
مری آنکھوں سے دریا پھوٹ نکلا جب ندامت کا
ہوئی برسات نازل مجھ پہ لطفِ مصطفائی کی
عزیزؔ اکثر چھپا لیتا ہے چہرہ شرمسار اپنا
جہاں بھی ہو، اِسے عادت ہے اب مردم گریزی کی
*
مدینے کے پہاڑو سنگریزہ ہوں ندامت کا
مجھے اپنا لیں دامن میں، کوئی گوشہ سکونت کا
مدینے کی ہواؤ مَیں ہوں برگ خشک کی صورت
اڑا لے جاؤ مجھ کو مَیں بھی دیکھوں باغ رحمت کا
سہانے راستو لے جاؤ مجھ کو تم ہی اس در تک
جہاں پر فیض بٹتا ہے برأت کا شفاعت کا
سیہ کاری خطاکاری پہ نادم، اُن کی چوکھٹ پر
جھکی نظریں جھکا چہرہ، نہ تھا یارا صراحت کا
چھپاتا کس طرح چہرہ گنہ آلود ہاتھوں سے
بڑا احسان ہے مجھ پر مرے اشکِ ندامت کا
کھِلی کلیاں، فضا مہکی، اٹھے بادل درودوں کے
بنی رم جھم سلامی کی یہ موسم ہے عقیدت کا
محبت پھول ہے خوشبو ہے جھونکا ہے لطافت کا
گُندھے جب نعت پھولوں میں شہد بنتا ہے جنت کا
یہی وہ شہد ہے جس کا مزہ ملتا ہے کلمے میں
مٹھاس اس میں ہے وحدت کی قوام اس میں رسالت کا
عطا کر دیں مجھے بھی مایۂ نعت و سخن آقاؐ
کہ بانٹوں شہد میں خوئے ادب کا حسنِ دعوت کا
فضائے عطر، مثلِ نحل، میری دسترس میں ہے
مَیں سب پھولوں سے لوں رس نعت کا، حرفِ حلاوت کا
رہے ہر گل، کلی، کونپل پہ یوں رقصِ ثنا میرا
مرے پَر جھومتے گائیں ترانہ اُنؐ کی مدحت کا
زباں پر نعت ہے اور دل مزّین ہے درودوں سے
چمکتا ہے مرے سینے میں نور اُنؐ کی محبت کا
صبا لائی ہے طیبہ سے نویدِ جرعۂ تسکیں
مَیں جاؤں گا مدینے میں پیوں گا جام سیرت کا
مَیں اب تا حشر بیٹھوں یا رسول اللہؐ چوکھٹ پر
سرِ محشر مرے سر پر ہو سایہ ابرِ رحمت کا
عزیزؔ آنکھوں سے ٹپکے آخرِ شب درد کا دریا
کسی پہلو نہ چین آئے، یہ ہے سامان راحت کا
*