استقامت- کلیات نعت

رات کے صبروتحمل سے اندھیرے پاٹیں
صبح کی خامشی سورج کو تمازت بخشے
بحرِ ذخار ٹھہر جائے تو طوفاں اٹھیں
طبعِ فطرت پہ خزاں گذرے تو
رنگیں موسم
فصلِ گل بن کے بہاروں کو بصارت بخشے
رنگ مہکیں تو سماعت میں کھلے نغمۂ گل
استقامت ہے یہی
صبح کی خامشی یا رات پہ جو صبروتحمل گذرے
طبعِ فطرت پہ خزاں کا موسم
استقامت ہے سکوں اور سکوت
جس کے باطن میںرہیں
درد کے طوفاں برپا
موج در موج ارادے کے بھنور چلتے رہیں
ربطِ خاطر کی توانائی کا دھارا اترے
وہ محبت جسے ہر پھول اطاعت بولے
اور خوشبو جسے اندازِ ادب کہتی ہے
جس کو گلشن کی ہوا نغمۂ نصرت کہہ کر
شاخ در شاخ سنانے لگ جائے
من کے اس شور کو باطن ہی کہیں
ایک سکوں اور سکوت
ایک سپر
جس سے ہر بغض و عداوت کی خزاں ٹکرا کر
اپنے انجامِ حزیں بخت کا نوحہ پڑھ لے
دل میں جب عشقِ نبیؐ ہو برپا
استقامت ہی دل و جاں کا مقدر ٹھہرا
استقامت ہے رہِ عشق پہ چلتے رہنا
ہر اذیت کو پرِ کاہ سمجھتے رہنا
ہر عداوت سے بہر طور گریزاں رہنا
ڈگمگاتے ہوئے، ہر گام، سنبھلتے رہنا
شمعِ نصرت کو ہتھیلی پہ جلائے رکھنا
اَدَب و فن کے نئے غُنچوں کو
لبِ نطق کھِلائے رکھنا
گلِ طاعت کی مہک دل میں بسائے رکھنا
استقامت ہے رضا کے در پر
ہر گھڑی تم
سرِ تسلیم جھکائے رکھنا
غمِ محبوبؐ کو سینے سے لگائے رکھنا
التجاؤں کو نگاہوں میں سجائے رکھنا

*