حضوؐر آپ کی باندی فشار ِغم میں ہے- کلیات نعت
نحیفِ شوق، مشقت گہِ جنوں میں نڈھال
فشارِ غم سے شکستہ بدن کا ہر خُلیہ
قتیل نشترِ سوزِ دروں سے ہر رگِ جاں
وہ ایک مانجھی جو کشتی ڈبو کے بیٹھا ہو
غریقِ گریۂ بیچارگی، لبِ دریا
بساطِ ظلمتِ شب میں کوئی کرن بھی نہیں
محیط وسعتِ جاں پر مہیب سناٹا
جو دل کی آنکھ پہ روشن ہوا فریبِ حیات
ہوس کدۂ نفس کا وجود لرزاں تھا
حریمِ جاں میں نئے کرب کا اندھیرا تھا
مگر وہ ایک شرر زیرِ خاکِ افسردہ
وہ ایک جگنو، وہ اشکِ دعا، سرِ مژگاں
وہ غمکدے میں مسرت کی چاندنی کا وجود
وہ ایک یادِ خدا، یادِ مصطفیٰ کا چراغ
وہ روشنی وہ حرارت، وہ زندگی کی نوید
وہ ایک منبعٔ قوت وہ چشمۂ تدبیر
حیاتِ تازہ، وہ ہجرت الی الرسول جنوں
وہ کارزار میں کودی تھی بے خطر ہو کر
بنامِ عشقِ خدا اور بنامِ عشقِ رسولؐ
عطا ہوئی جو اسے زندگی کی ہر تدبیر
ہزار خطروں سے یوں پنجہ آزمائی کی
’’وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا‘‘
نئے جہاں کو ملا گوشۂ درود کا نام
یہ داستان کہ ہے داستان خونِ جگر
مگر یہ سارا کرم چشمِِ مصطفیٰؐ کا ہے
نیا سفر، یہ نیا راستہ، لگن یہ نئی
جو خارِ راہ تھے بن کر گلاب کھل اٹھے
بجھے ہوئے تھے دئیے، مثلِ طور جل اٹھے
علم درود کا لے کر حضورؐ کی باندی
گلی گلی میں گئی لے کے دعوتِ قرآں
وہ لے کے آنے لگی بزمِ مصطفیٰؐ کی بھیک
ہوا مدینے کی برکات لے کے چلنے لگی
درود کلیوں سے ساری فضا مہکنے لگی
مہِ سلام کی گھر گھر میں چاندنی اتری
نحیفِ عشق و جنوں، کشۃٔ رضا باندی
وہ کوہِ عزم، چلی بحرِ بیکراں بن کر
برہنہ سر کے لئے ایک سائباں بن کر
فروغِ نعت کی ہر روز محفلیں ہوتیں
تمام بستی کے بچے درود پڑھنے لگے
اور ان کی مائیں بھی محوِ سلام رہنے لگیں
شغف ملا انہیں قرآن کی تلاوت کا
فلک پہ نورِ ہدائت کا چاند نکلا تھا
ہر اک زبان پہ تھا کلمۂ درود رواں
جو وقت گذرا وہ رحمت کا ایک دریا تھا
حضور سرورِ عالمؐ کی ناتواں باندی
سرورِ نعت میں رہتی تھی پرفشاں ہو کر
حیاتِ تازہ، وہ ہجرت الی الرسولؐ جنوں
میانِ صبح و مسا ذکر و نعت کی محفل
حضورؐ آپ کی باندی نے کتنے دکھ جھیلے
حضورؐ آپ کی باندی نے کیا مشقت کی
حضورؐ آپ کے جود و کرم کی برکھا نے
اُسے وہ گوشۂ بزمِ درود بخش دیا
کہ جس میں شام و سحر رحمتیں برسنے لگیں
حضورؐ چھن گیا پھر گوشۂ درود اس سے
حسد کی آگ جلی اور یوں چلی صر صر
کوئی بھی پھول نہ تھا، شاخ شاخ ننگی تھی
حضورؐ پھر سے وہاں تیرگی کا ڈیرہ ہے
حضورؐ آپؐ کی باندی کو نعت کا غم ہے
فنائے عشق کو بزمِ درود کا غم ہے
متاعِ فقر و رضائے رسولؐ کا غم ہے
ہر ایک لمحہ سسکتا ہے آپؐ کی خاطر
برستا رہتا ہے آنکھوں سے یاد کا قلزم
حضورؐ آپؐ کی باندی کو آپ کا غم ہے
ہے بیقرار کہ حبِ رسولؐ کا غم ہے
عطائے مصطفیٰؐ منزل میں کوئی پھول کھلے
حضورؐ آپ کی باندی حصارِ غم میں ہے
نحیفِ شوق، مشقت گہِ جنوں میں نڈھال
ضعیف، لاغر و کمزور، ناتواں باندی
ہے التماس کہ اُس کو سکون مل جائے
وہ بیقرار ہے، اُس کو قرار مل جائے
برستی آنکھوں کو دیدارِ نور مل جائے
وفورِ شوقِِ نبیؐ کو سرور مل جائے
شبِ سجود کو صبحِ حضور مل جائے
ندائے کرب کو آوازِ طور مل جائے
پھر اس کو آپؐ کی بزمِ درود مل جائے
جنوں کا فیصلہ ہجرت الی الرسولؐ تو ہے
حضور آپؐ کی باندی دیارِ غم میں ہے
حضور آپؐ کی باندی فشارِ غم میں ہے
*