چشمۂ تسکیں- کلیات نعت
طلوعِ شمس نے آخر
لپیٹی ہے بساطِ شب
اسی سے چشمِ بینا میںبصارت کا سحر جاگا
چمن میں صبحدم
حمدو ثنا کے گیت کھِل اٹھے
بہارِ نور نے روشن کیادھرتی کے سینے کو
زمیں پر زندگی رینگی، اٹھی، دوڑی
طلوعِ شمس نے
کرنوں کی ہر تاثیر کو
لطفِ عیاں بخشا
حیاتِ ارض میں لیکن
توانائی میں رفت و بود ہوتی ہے
پرندے جب تلاشِ رزق میں دن بھر
پروں پر تیرتے
کچھ مضمحل محسوس کرتے ہیں
زمیں میں رینگتی سانسیں بھی
تھک کر بیٹھنے لگتی ہیں
سستا لیں
تو سورج دیکھ کر
ان سے تمازت کو ہٹاتا ہے
اور آخر ڈوب جاتا ہے
سکوں پھر سے محیطِ شب
محیطِ زندگی
ہر زندگی سہلانے لگتا ہے
بہت کم ہیں جو شب بیدار ہوتے ہیں
سکوں ہر زندگی کی
ہر رگِ جاں میں
سرایت کرتا جاتا ہے
گلستاں میں بہاریں بھی
محیطِ زندگی ہو کر
ہواؤں کے تصدق سے
حیاتِ ارض کی تسکیں کا ساماں کرتی رہتی ہیں
طلوعِ شمس
شامِ زندگی اور
ان بہاروں سے
ہویدا ہے وہ نورِ روح پرور
جو مجھے ملفوف کر لیتا ہے
اُس بارانِ رحمت میں
جو پَو پھٹنے کی صورت
رات کی چادر کی وسعت کی طرح
اور گلشنِ ہستی میں
اظہارِ محبت کی
محیطِ زندگی آئی بہاروں کی طرح
میں نور کی برسات میں ملفوف ہوتا ہوں
یہ میرا نورِ ایماں ہے
طلوعِ شمسِ الفت ہے
شبِ احسان کی تسکیں
بہارِ زندگانی ہے
میں مطلع ہوںاسی نورِ محبت کا
میں مسکن ہوں
شبِ اجزائے مدحت کا
بہارِ نعت ہوں
جس سے مہکتا ہے چمن سارا
چٹکتی جاتی ہیں کلیاں درودوں کی
ہوائے عجز چلتی ہے
سلامِ بندگی لے کر
یہ فصلِ گل
یہ نورِ لطفِ ایماں
جب اترتا ہے مرے دل پر
میں اس لمحے
درِ نعمت، درِ رحمت
درِ اقدس پہ ہوتا ہوں
یہی وہ نورِ عرفاں ہے
جسے سیرت بھی کہتے ہیں
سلام انؐ پر
کہ جو چوکھٹ پہ رکھتے ہیں
غلاموں کو
درود انؐ پر
کہ جن کی رحمت و شفقت
ہے بے پایاں
یہ سب خیرات ہے انؐ کی
محیطِ جاں
جسے ہم نعت کہتے ہیں
جو ہے نورِ بصیرت، نور سیرت
اور بہارِ زندگانی
چشمۂ تسکیں
طلوعِ صبحِ ایمانی
درود انؐ پر سلام انؐ پر