طواف- کلیات نعت
(۱)
ا لہِٰ کون و مکاں، کبریائے ہست و بود
محیطِ حمد و ثنا ہے صدائے کن فیکون
مدارِ طاعت و تسبیح پر ہیں شمس و قمر
خمارِ ذکر میںبزمِ مہ و ستارہ ہے
گذرتے لمحوں کی تکبیر
سجدہ ٔ توصیف
کہ نطقِ وقت فقط حرفِ کبریائی ہے
طواف ِعرشِ بریں میں ہے کارروانِ وجود
لطافتوں کا امیں طوفِ بدر و ماہِ تمام
مدارِ مہرِ تپاں ہے سفراجالوں کا
مدارِ طاعت و تسبیح پر ہیں شمس و قمر
ہے ایک نغمۂ لبیک بندگی اِن کی
طوافِ کعبۂ معمور زندگی اِن کی
مدارِ نحل، شفا اور شہد کی تخلیق
مدارِ بحر ، تلاطم بدوش مدّوجزر
مدارِ صر صرِ صحرا ، فشارِ ریگِ تپاں
مدارِ موجِ صبا
سیلِ بوئے لالہ و گُل
گلاب بوئیں اگر تو گلاب اُگتے ہیں
زمیں میں خار دبائیں تو خار اُگتے ہیں
ہے ایک نغمۂ طاعت مدارِ بزمِ وجود
نظامِ کون و مکاں ہے ازل سے محوِ طواف
رسولِ کون و مکاں کے لئے شبِ معراج
مدارِ نعت پہ یوںکاروانِ وقت تھما
سمٹ کے رہ گیا سارا سفر زمانوں کا
ہے کائنات کا ہر ذرہ صاحبِ ایماں
ہے کائنات کا ہر ذرہ امتی اُنؐ کا
ثنا کے وجد میں رہتی ہے کائنات تمام
ثنا کے نور سے روشن جہاں کی پہنائی
ردائے نعت کے سائے میں ہے فضائے بسیط
ضیائے حمد سے تاباں ہیں کہکشائیں بھی
کہیں پہ کفر کی آلائشیں ، نہ فسق و فجور
مدارِ نغمۂ فطرت فقط رکوع و سجود
نہیں فراز کہیں پر، کہیں نشیب نہیں
کہیں ارادۂ ناحق نہیں، فریب نہیں
فشارِ آتشِ نفرت سے پاک ہے فطرت
فساد و جبر و تشددسے پاک ہے فطرت
جمالِ خلقتِ صبحِ نمود ، صل علیٰ
ربابِ عشق پہ جاری سرود ، صل علیٰ
ہے ایک وجد کا موسم درود ، صل علیٰ
شبابِ نور ہے ان کا ورود صل علیٰ
’’یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لا الہ الا اللہ‘‘
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍo
وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِo
مدارِ نغمۂ فطرت فقط رکوع و سجود
طوافِ شمس و قمر ہے
مدار پر چلنا
مدارِ شجروہجر ہے نمازِ طاعتِ حق
ہے پتے پتے پہ تحریر حرفِ حمدوثنا
نظامِِ شمس و قمر میں نہیں کوئی فرعون
مدارِ ارض و سما میں نہیں یزید کوئی
نہ اس مدار میں ممکن گذر ہے شیطاں کا
کہ اس پہ
دہکتے انگارے داغے جاتے ہیں
وَ حِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍo
دیارِ شوق میںاس کا گذر نہیں ممکن
مدارِ عالمِ انساں بھی مختلف تو نہیں
مدارِ عالمِ انساں بھی نغمۂ تسبیح
سجدۂ توصیف
عَلَّمَ الْقُرْاٰنَo
اطاعتِ یزداں
طوافِ بیت عتیق
خَلَقَ الْاِنْسَانَo
عَلَّمَہُ الْبَیَانَo
’’اسے ہے حکمِ اذاں
لا الہ الا اﷲ‘‘
اطاعتِ رحمن
مطافِ حمد و ثنا پر
فغانِ توبہ کے احرام میں
طوافِ رضا
مگر عدّوِ مبیں
کہ ہے کیا جسے یزداں نے آگ سے پیدا
فشارِ نارِ جہنم ہے جس کی طینت میں
دیا حضورِ خدا جس نے سرکشی کو وجود
ازل سے عظمتِ انسانیت کا دہشت گرد
ْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ
نعرۂ فجور کے بعد
مدارِ طاعتِ انساں پہ جم کے بیٹھ گیا
کھلا دشمن
وہ نوعِ انساں کا
جو سبز رنگ کرم تھا زمیں کے سینے پر
مہک رہی تھی جو رحمت سے جنت ارضی
رچی ہوئی تھی فضا نعمتوں کی رم جھم سے
فساد رنگ ہے وہ حسن خونِ آدم سے
لہو لہو ہے وطن
مطافِ امن پہ خونِ وفا کے چھینٹے ہیں
ہوا قتالِ اخوّت انا کے خنجر سے
لٹے ہیں جھونپڑے بھوکوں کے، بے گناہوں کے
وطن کی آن کا سودا کیا ہے رہبر نے
مدارِ طاعتِ شیطاں پہ چل پڑا انساں
لہو میں ڈوب گیا جذبۂ طوافِ حرم
خدائے عز و جل!
تو دیکھتا بھی ہے ، سنتا ہے، مجھ کو جانتا ہے
تجھے پسند بہت ہے معاف کر دینا
اے میرے مالک یومِ حساب،
اے رحمن!
میں تیرا بے بس و محروم، بندۂ عاجز
مطافِ حمدوثنا پر ہوں
اے خدا ، لبیک!
میں تجھ سے مانگتا ہوں بس تری رضا ، لبیک!
رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ ہے تو
رَبُّ الْمَغْرِبَیْن بھی تو
ہے ایک نغمۂ لبیک بندگی اپنی
مطافِ حمد پہ چلنا ہے زندگی اپنی
مرا طواف
عدّوِ مبیں کی سرکوبی
وطن کی
فساد سے تطہیر
لوٹ مار سے تطہیر
دہشت گروں کی سرکوبی
فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo
وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo
جنہوں نے رکھ دیا گروی وطن کو
ملت کو
اُن رہبروں کی سرکوبی
یہی مطاف مرا اور یہی مدار مرا
ضربِ عضب طواف
ضربِ امن طواف
مرے خدا لبیک!
میں تجھ سے مانگتا ہوں
بس تری رضا ، لبیک!
مطافِ حمد و ثنا پر
فغانِ توبہ کے احرام میں طوافِ رضا!
یوں تنفس میں رہے بادِ شفا
زہر ترغیب کا زائل ہو جائے
(۲)
نطق خالق ارض و سما
نطق رسول اللہ کے نور کی ترشحات سے تاباں
آئینے میں دیکھا
ٹھیکری کی طرح بجتا ہوا خشک گارا
سیاہ، سن رسیدہ بدبو دار گارا،
مٹی کا خلاصہ
پھر حقیر پانی کا نچوڑ
ایک اچھلتے ہوئے
تولیدی قطرے سے پیدا کیا ہوا کھُلا جھگڑالو
رحم مادر کے اندر جونک کی صورت معلق وجود
دانتوں سے چبایا ہوا لوتھڑا
جس کی تکمیلِ بشری پر اس کے باطن میں
خالقِ شمس و قمر ،
اللہ الصمدنے اپنی روح پھونک دی اور
ملائکہ کے خدشۂ فساد پر کہا
میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
انجیر، زیتون، طور سینا اور امن والے شہر مکہ کی قسم
ـ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیاـ‘‘
پھر اسے پست سے پست حالت میں لوٹا دیا
سوائے ان کے
’’جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے‘‘
طواف کرنے والے
(۳)
جب عمر بن خطاب نے طواف شروع کیا تو حجر اسود سے کہا
اے اسود
تو ایک پتھر ہی تو ہے
میرے نبی کے نورانی ہونٹوں نے تجھے بوسے سے سرفراز نہ کیا ہوتا تو
عمر تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا
یوں میں نے
خلیفۃ الرسول کی رفیقِ نبوت روح کی معیت میں
حجر اسود کا استلام کیا
پھر طواف ! طوافِ مسلسل
عمر کا بوسۂ اسود ایمان کے شعورکا امین ،
نعت ختم المرسلین!
الصلوٰۃ و السلام علیک یا روح خلیفۃ الرسول اللہ عمر ابن خطاب
(۴)
مری اوقات تو بوسیدہ بدبودار گارا ہے
فضا ئے زندگی
پہنائیِ عصیاں
اندھیری شب میں لذات و ہوائے نفس کا طوفاں
خدا کے خوب رو مرسل کا کہنا ہے
مجھے نفسِ مکدر کی برأت کا نہیں دعویٰ
یہ لذت آشنا پیکر فریبِ رنگ و بو میں ہے
یہ محکومِ بغاوت ، ذائقوں کی جستجو میں ہے
مرے کاموں میں لذت کا تعفن ہے
یہ بدبودار گارے کا تعفن ہے
مگر جس پر کرم کی آبشار اترے
خدا کے بابِ رحمت سے جمالِ کردگار اترے
نفخت فیہ کا نورِ لدنی جگمگا اٹھے
عمرؓ کا بوسۂ اسود
مطافِ نعت میں مدحِ نبی کا نغمۂ عرفاں
طواف قبلہ وکعبہ
حضورِ حق میں آنے کا بلاوا اور
حضوری کا خنک سایہ
(۵)
مگر رب محمد نے قسم کھائی قیامت کی
برائی پر ملامت کرنے والے نفس کی
ہماری ہڈیاں کیا!
انگلیوں کے جوڑوں اور پوروں کو بھی
اپنے حسنِ خلقت سے سنوارے گا ، اٹھائے گا
اور یہ بھی پوچھے گا
بتاؤ تو!
مرے محبوب پر ایمان لائے اور محبت کی؟
ادب ، تعظیم، طاعت کی؟
جہانِ رنگ و بو، رشتے محبت کی تمازت کے ،
مال اور جان و دل
کئے قربان
رسولِ نور کی خاطر؟
جو میں نے روح پھونکی تھی
اگر اس پر ہلاکو بن ہی بیٹھے تھے
تو جا کر سرورِ عالم کے در سے عفو کی خیرات مانگی تھی؟
ندامت کی
صبا کے ہاتھ پر شمعیں جلائیں تھیں؟
سر مژگاںسرودِ نعت کی محفل سجائی تھی؟
طوافِ مدحتِ خیرالوریٰ کے نام پر احرام باندھا تھا؟
جمالِ حجرِ اسود کو دیا بوسہ محمد کی غلامی کا؟
طوافِ کعبۂ عشق نبی کرتے
رضائے مالک و مختار ڈھونڈی تھی؟
ندامت اور پشیمانی کا نشّہ پی کے جھومے تھے؟
مقام ملتزم پہ آ کے تسبیح و ثنا کی تھی؟
حضورِ مصطفیٰ،
وفورِگریۂ توبہ سے دامن تر کیا اپنا؟
(۶)
طواف کعبہ
میری روح کے قرب پیمبر کا وہ زینہ ہے
جہاں تنہا نہیں ہوں میں
مطافِ حمد میں اترے ہوئے تھے نور کے پیکر
مری روحِ رضا کو
جہانِ نور کی ارواح کا عرفان حاصل تھا
وہ ارواحِ مقدس آپؐ کے پیارے صحابہ کی
صحابہ کے وفورِ عشق کے دریا کی طغیانی
وہ تسبیحاتِ ارواحِ مقدس اور درودوں کے ترنم اور وہ رم جھم تجلّی کی
طوافِ نور کا جوبن
ندائیں میری توبہ کی، رضا کی بھیک کی سسکی، کسک اپنے گناہوں کی
تأسف، عجز کا گریہ طوافِ کعبہ کا جوبن
جہاں میں تھا
فروغِ ذکر اور ارواح کی محفل
شہدائے احد کی ارواحِ مقدسہ،
نقیب ِ مدینہ مصعب بن عمیر،اُسید بن حضیر، عمارہ بن زیاد،رسول اللہ کے حصار میں اپنے
جسم پر تیر کھانے والے ابو دجانہ جن کی پشت تیروں سے سیاہ ہو گئی تھی ، ۸۰ زخموں والے
انس بن النضر، عم رسول اللہ حمزہ بن عبدالمطلب، اور دیگر صحابہ کرام کی ارواح برگزیدہ؛
غزوۂ احد کی مدح النبی ، عشاق صحابہ نے اپنے خون سے لکھی
وہ بوسے حجرِ اسود کے
وفورِ بندگی اور التجاؤں کی جھڑی اور عفو کی برسات کا موسم
مقامِ ملتزم اور یادِ پیغمبر
طوافِ عشق کی رمزِ تسلسل روح میں اتری
پھر ارواحِ صحابہ کی معیت میں
نفس لوامہ کو
احسن تقویم کی منزل نظر آنے لگی
قربتِ رسولِ امیں کی جنت کے نظارہ ہائے سرور و انبساط
درودوں کے نغمے اور حمد باری تعالیٰ کا ساغرِ تسنیم
دعائے توبہ کا لرزہ، خشیّت کی کپکپی
تمنائے حضوری کی شبنم،
طواف کا گھنگھور گھٹاؤں میں ڈوبا ہوا
سبز وسعتوں کا موسم
جنت کی ندیاں، نہریں، زنجبیل،سلسبیل اور کوثرِ پر نور
ہر سمت مدینے کی فضائیں ، نزولِ وحی کے مقاماتِ جبریل
طواف کعبہ کا عرفان
(۷)
بیت اللہ اور فتح مکہ
کعبہ کی بتوں سے تطہیر
اور شانِ علی کا طلسماتی ظہور
شانۂ رسول اور علی بت شکن
اللہ کی وحدانیت اور حاکمیتِ اعلیٰ کا اعلان
لا الہٰ الاللہ وحدہ لاشریک لہ
صدقہ وعدہ، و نصر عبدہ، و ھزم الاحزاب وحدہ
خون اور مال کے دعوے، قدمینِ پاک کے نیچے
حیات انسانی کی تکریم و حفاظت کی ضمانت
سب انسان آدم سے اور آدم مٹی سے
تقویٰ تکریم کی بنیاد
رسول اللہ کی شان عفو و رحمت
جاؤ تم سب آزاد ہو!
لا تثریب علیکم الیوم
جاء الحق و زہق الباطل
خطبۂ فتح مکہ
پوری کائنات نے میرے نبی کی عظمت کو دیکھا
طوافِ کعبہ
تزکیہ، حکمت و ہدایت کی بہار جاوداں
طواف کعبہ کی تجلیات سے حیات انساں کا ہر گوشہ روشن!
تشکر
تشکر چشمِ پر نم ہے
تشکر روح کی تسکین کا ساماں
تشکر صبحِ عرفاں ہے
تشکر قرب کا امکاں
تشکر رازِ راضی ہے
تشکر انکساری ہے
مری اوقات کمتر، پست تر،
خاشاکِ دنیا اور زبوں حالی
مطافِ نعت میں طوف حرم لیکن
محمد کی رضا کا غم
عروجِ ہستیٔ انساں
طوافِ کعبہ کا عرفاں