پھیلی ہوئی وجود میں اک بے کلی تو ہے- کلیات نعت

پھیلی ہوئی وجود میں اک بے کلی تو ہے
سینے میں اُنؐ کی یاد کی تابندگی تو ہے

جنت کا اہتمام سمجھنے کی بات ہے
ایمان کہہ رہا ہے کہ اُنؐ کی گلی تو ہے

دائم پڑا رہوں گا درِ مصطفیٰؐ پہ مَیں
گرنی مرے وجود کی دیوار ہی تو ہے

کہتے بھلا ہیں اور کسے نگہِ التفات
آنکھوں میں تیرتی ہوئی شرمندگی تو ہے

محوِ درِ حبیبؐ ہے درویشیٔ سخن
فصلِ دعا برستی ہوئی عاجزی تو ہے

پنہاں ہے اِس میں عالمِ دیدارِ مصطفیٰؐ
آنکھوں کا نور قطرۂ یادِ نبیؐ تو ہے

اک لمحۂ نگاہِ کرم بیکراں ہوا
ہر سو جہانِ نعت کا منظر وہی تو ہے

یوں بھی بہت قریب ہوں آقاؐ کے در سے مَیں
جو آ رہا ہے سانس مجھے، آخری تو ہے

مولیٰ کہیں گے لاؤ یہ قلبِ سلیم ہے
دل میں فضائے شہرِ مدینہ بسی تو ہے

تھوڑی بھی اِس میں رغبتِ دنیا اگر رہے
آئینۂ خلوص کی آلودگی تو ہے

حاوی سکونِ قلب ہے آشوبِ عصر پر
وقفِ درِ حبیبؐ مری زندگی تو ہے

میں ماہتابِ ذوق کا ممنون ہوں بہت
اِس رات میں ثنا کی مدھر چاندنی تو ہے
اتریں گے اس پہ فصلِ گل و لالہ کے چراغ
یہ شاخِ آرزو، کہ ابھی تک ہری تو ہے

برسے گی آج اُنؐ کے کرم کی گھٹا بہت
بھیگی ہوئی ہوائے مدینہ چلی تو ہے

آؤ درِ حبیبؐ پہ بخشش کے واسطے
لکھا فصیلِ وقت پہ حرفِ جلی تو ہے

صبحِ نجات نکلے گی مدحت کے نور سے
چھائی ہوئی جہان پہ تیرہ شبی تو ہے

جاری رہے گا جانبِ طیبہ سفر مرا
کلمے کی روزِ حشر تک چارہ گری تو ہے

مر کر تو مل ہی جائے گا مجھ کو درِ رسولؐ
آزاد ہے جو موت سے وہ زندگی تو ہے

میں قبر ہی سے ساتھ چلا جاؤں گا عزیزؔ
اَنتَ مَعَ کا مژدۂ قولِ نبیؐ تو ہے

*