گلہائے نعت روح میں مہکے ہیں آج بھی- رزق ثنا (1999)

گلہائے نعت روح میں مہکے ہیں آج بھی
لب پہ درودِ پاک کے جھرنے ہیں آج بھی

کاغذ پہ آنسوئوں کی ہے جھالر سجی ہوئی
ہاتھوں میں آرزو کے صحیفے ہیں آج بھی

دل سے لکھی ہیں مصحفِ جاں پر عبارتیں
نامے درِ رسولؐ پہ بھیجے ہیں آج بھی

نقشِ قدم حضورؐ کے تھے چومنا اسے
مٹی سے پھول اس لیے اگتے ہیں آج بھی

کل بھی تھی گھر میں اسمِ محمدؐ کی چاندنی
روشن چراغ عشقِ نبیؐ کے ہیں آج بھی

ابو چلیں گے ہم بھی سلامی کے واسطے
بچے مرے حضورؐ مچلتے ہیں آج بھی

لبریز خوشبوئوں سے مناظر حجاز کے
آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہیں آج بھی

اس شہرِ دلپذیر کی گلیوں کے ذکر سے
پلکوں پہ آئنے سے چمکتے ہیں آج بھی

پہروں وہ بیٹھنا درِ اقدس کے آس پاس
پیشِ نگاہ چاند سے چہرے ہیں آج بھی

وہ بابِ جبرئیل وہ مینار وہ ستون
چشمِ تصورات میں بستے ہیں آج بھی

ہر وارداتِ قلب و نظر یاد ہے ریاضؔ
مہکے ہوئے حیات کے لمحے ہیں آج بھی