مدینے کی تمنا میں چمکتے ہیں مرے آنسو- کلیات نعت
مدینے کی تمنا میں چمکتے ہیں مرے آنسو
ندامت بار آنکھوں میںستارے ہیں مرے آنسو
وہاں سرکارؐ کے در پر اترتا ہے کرم اِن پر
اُسی در کی نوازش یاد رکھے ہیں مرے آنسو
شبِ ہجراں کی تنہائی مسافت ہے کٹھن لیکن
چراغاںکرتے کرتے سنگ رہتے ہیں مرے آنسو
مدینے سے ہوائیں رقص کرتی جب لٹاتی ہیں
تبسم پھول خوشبوئیں، چھلکتے ہیں مرے آنسو
مجھے شرمندگی کی ضرب جب بے حال کرتی ہے
مری تسکین کا سامان کرتے ہیں مرے آنسو
مری امید کی مشعل اگر افسردہ ہوتی ہے
ہتھیلی پر اسے شب تاب رکھتے ہیں مرے آنسو
بہارِ آرزو میں پھول کھلتے ہیں دعاؤں کے
نوائے شوق کی شبنم کے قطرے ہیں مرے آنسو
لگے احساسِ عصیاں کا اگر نشتر مرے دل میں
رگوں کو چیر کر آنکھوں میں آتے ہیں مرے آنسو
میں روتا ہوں خطا پر شرمساری کی حضوری میں
رضا کی اک جھلک لینے نہ تھمتے ہیں مرے آنسو
بہت آزارِ دنیا سے جو گھبراتا ہے جی میرا
گھٹائیں یاد کی بن کر برستے ہیں مرے آنسو
مرا ان سارے رشتوں سے نہیں کوئی تعلق بھی
جنہیںرغبت نہیں اُنؐ سے ،سسکتے ہیںمرے آنسو
وہ جن کی کھوٹ نے للٰہیت کو مکر و فن سمجھا
وہ جانے اور خدا جانے، یہ اپنے ہیں مرے آنسو
بہار آلودگی کو پاٹ کر پہنچی ہے بطحا سے
اسی کے دوش جانے کو مچلتے ہیں مرے آنسو
وہ لمحہ دید کا جس سے معطر آسماں بھی ہیں
دمکتا ہے سرِ مژگاں، مہکتے ہیں مرے آنسو
ندامت سے رکا رہتا ہے میری سوچ کا دریا
اسی دریا کی گہرائی سے اٹھے ہیں مرے آنسو
رواں ہیں یہ قلم بن کر ردائے چشمِ ابیض پر
وہیں پر یاس کو ویران لکھتے ہیں مرے آنسو
انہیں برسات کا موسم بہت اپنا سا لگتا ہے
امڈتے ہیں گھٹاؤں میں ، برستے ہیں مرے آنسو
میں ہوں مرہون منت موجِ اشکِ شرمساری کا
بہالے جائے اُس در تک جوبہتے ہیںمرے آنسو
میں اشکوں سے چراغاں کر ہی لوں گا قبر میں اپنی
سلگتے رہنے کی تلقین کرتے ہیں مرے آنسو
انہیں نگہِ کرم کی چاندنی ایسی میسر ہے
کہ روشن حشر کا رستہ بھی رکھے ہیں مرے آنسو
حضورِ حق میں عفو و درگذر کی التجا کرتے
وفورِ عجز کا قلزم اگلتے ہیں مرے آنسو
بچا لیتے ہیں مجھکو ہیبتِ محشر کے لمحے میں
کسک بن کر تہِ دل میں سمائے ہیں مرے آنسو
عزیزؔ اجڑی ہے گرچہ زندگی لغزش کے طوفاں سے
متاعِ بے بہاآنکھوںمیںٹھہرے ہیں مرے آنسو
o