اسم حضورؐ شاخِ قلم پر کھلا رہے- رزق ثنا (1999)
اسمِ حضورؐ شاخِ قلم پر کھِلا رہے
یارب، ہری بھری مری کشتِ دعا رہے
لب پر اسی دعا کے ازل سے کھلے ہیں پھول
لب پر ابد تلک یہی حرفِ ثنا رہے
عزت ملی ہوئی ہے انہیؐ کے طفیل سے
محشر میں بھی کسی کا بھرم یاخدا رہے
کیفِ دوام میں رہے رعنائی خیال
ملکِ سخن میں شام و سحر رتجگا رہے
ہر لمحہ وقفِ مدحتِ سرکارؐ ہے کوئی
اب روز و شب سفر میں مسلسل صبا رہے
مرنے کے بعد بھی مری چشمانِ شوق میں
عکسِ جمالِ گنبدِ خضرا سجا رہے
تقسیم ہورہی ہے اکائی مری تو کیا
سر پر ردائے خاکِ رہِ مصطفیؐ رہے
دنیا کے مال و زر کی ہوس سے ملے نجات
گھر میں ہمارے ذکرِ شہِ دوسراؐ رہے
دنیا کا امن آندھیوں کی زد میں کب سے ہے
میرِ عربؐ کا پرچمِ رحمت کھلا رہے
انسان کی بقا کا بھی کچھ اہتمام ہو
اُنؐ کے کرم کا چاروں طرف دائرہ رہے
ہر رہگذر میں لشکرِ شب کا ہجوم ہے
اُنؐ کا چراغِ نقشِ کفِ پا جلا رہے
نعتِ حضورؐ ہی مری پہچان ہے ریاضؔ
نعتِ حضورؐ ہی مرے لب پر سدا رہے