ادھ جلی برہنہ شاخوں پر شاداب موسموں کا نزول- رزق ثنا (1999)
یہ روشنی جو
گزر گئی ہے
مری گلی سے بچا کے دامن
یہ خوشبوئیں جو
مرے گھروندے کے زرد آنگن میں رقص کرنے سے ڈر رہی ہیں
یہ چاندنی جو
مرے دریچے کو چھو کے واپس پلٹ گئی ہے
یہ دلکشی جو
بہار اپنے بدن پہ اوڑھے
شبِ دعا کی برہنہ شاخوں سے دور خیمے لگا رہی ہے
یہ کہکشاں جو
مرے چراغوں پہ طنز بن کر برس پڑی ہے
یہ رنگ جو آسماں کی وسعت
فلک کی بنجر فضا میں کب سے
بکھر رہے ہیں
مگر مری ان سسکتی شاموں، سلگتی صبحوں سے اپنی آنکھیں چرا رہے ہیں
مرا تمسخر اڑا رہے ہیں
سنو، سنو میرے تشنہ ہونٹوں پہ اسمِ رحمت چھلک پڑا ہے
مرا مقدر بدل رہا ہے
تمام منظر کی دھند رختِ سفر لپیٹے ہوئے کھڑی ہے
بدن میں کرنیں اتر رہی ہیں
حریمِ دل میں چراغ سجدے میں گر کے اُنؐ کے نقوشِ پاکو ادب کا معبد بنارہے ہیں
اُفق اُفق جگمگا اٹھا ہے
روش روش گنگنا اٹھی ہے
یہ روشنی، خوشبوئوں کی رِم جھم
یہ چاندنی، دلکشی کی لہریں
یہ کہکشاں، یہ دھنک کی مالا
گریز پا تھیں
مگر یہ کیا؟۔ ۔ ۔ اب ہوائے طیبہ کے نقشِ پاکو
بنا کے اپنی جبیں کا جھومر
مرے دریچے کی سمت اِمشب
قدم قدم طشتِ زر اٹھائے
بفیضِ ذکرِ رسولِ آخرؐ
رواں دواں ہیں
قطعہ
اب کے برس بھی میرے مقدّر میں اے خدا
میلادِ مصطفیٰؐ کا مہینہ لکھا رہے
ملتا رہے یہ رزقِ ثنائے نبیؐ مجھے
اوراقِ جان و دل پہ مدینہ لکھا رہے