عندیہ- رزق ثنا (1999)
زمین شور زدہ ہے
بدن پہ داغ ہیں
چیچک کے اور برص کے داغ
زمیں پہ رات کے سائے کی ناروا زنجیر
قدم قدم پہ مرے پائوں سے الجھتی ہے
(زمیں پہ خوف کی جادوگری مسلّم ہے)
حدودِ جسم کے اندر بھی منجمد ہے لہو
دیارِ آتش و آہن میں برف زار بدن
جوارِ چشمِ تحیّر میں قتل گاہیں ہیں
(نفاذِ جبر سے جمہور کب ہراساں تھا
نفاذِ جبر سے جمہور کب ہراساں ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ حرا میں حرفِ اذاں آج بھی سلامت ہے
ہوا کے ہاتھ پہ تحریر ضبطِ پیہم کی
گرہ سی پڑ گئی سانسوں کی نرم ڈوری میں
فضا میں ابر کے قدموں کی چاپ سننے کو
ترس گئی ہے سماعت زمینِ مردہ کی
زمین شور زدہ
عالمِ تذبذب میں
قضا سے باندھنے والی ہے عہد اور پیماں
نگار خانۂ قدرت دھواں دھواں ہے تمام
ردائے ابرِ کرم کی تلاش میں کوئی
تمازتوں سے نسب اپنا جوڑ بیٹھا ہے
غبارِ وحشتِ غم سر پہ اوڑھ لیتا ہے
جوارِ چشمِ تحیّر میں قتل گاہوں کے
حضورؐ دھوپ قیامت کی دھوپ ہے باہر
ردائے ابرِ کرم کی تلاش ہے مجھ کو
حضورؐ آپ کے در کے سوا کدھر جائیں