مجھے تو لفظ کوئی اور سُوجھتا ہی نہیں- رزق ثنا (1999)
مجھے تو لفظ کوئی اور سوجھتا ہی نہیں
بجز حضورؐ، پسِ حرف مدعا ہی نہیں
ہوائے غم ہو کہ یلغار ہو حوادث کی
چراغِ عشقِ محمدؐ کبھی بجھا ہی نہیں
حدیثِ عشق بیاں کرتے ہیں مرے آنسو
کسی کا نطق زباں اپنی کھولتا ہی نہیں
سرِ شعورِ عقیدت بھی سرنگوں ہے وہاں
فقط حضورؐ کی چوکھٹ پہ یہ صبا ہی نہیں
حضورؐ لذتِ سوز و گداز بھی تو ملے
ورق پہ اشکِ ندامت کبھی گرا ہی نہیں
مَیں اُس کے کھُردرے لفظوں پہ واہ واہ کروں
جو ہجرِ سرور کونینؐ میں جلا ہی نہیں
وہ راستہ جو در پاک تک نہیں جاتا
وہ راستہ مرے بچّوں کا راستہ ہی نہیں
دل و نظر کی گزرگہ اجالنے والا
غبارِ شہرِ مدینہ کو بھولتا ہی نہیں
دیارِ عشقِ محمدؐ میں گم ہے سارا جہاں
دیارِ عشقِ محمدؐ کی انتہا ہی نہیں
مَیں منتظر ہوں اجازت حضورؐ دیں تو چلوں
یہ فاصلہ تو مگر کوئی فاصلہ ہی نہیں
وہ جس کی آنکھ ہو رعنائیوں کے جھرمٹ میں
کسی گلی میں کسی سمت دیکھتا ہی نہیں
خزاں کا خوف مسلط ہے اسکے چہرے پر
بہار اُنؐ کے تصوّر سے آشنا ہی نہیں
عجیب ایک تماشا سا ہے سرِ محشر
ریاضؔ آپؐ کے قدموں کو چھوڑتا ہی نہیں