حضورؐ لغزشِ پا کا جواز کیا ڈھونڈیں- رزق ثنا (1999)
غبارِ خوف و مصائب ہے روز و شب پہ محیط
چراغِ دیدۂ تر بھی بُجھا بُجھا ہے حضورؐ
ہجومِ اشک میں کچھ کھو گئی ہیں تصویریں
یقیں کا دامنِ صد چاک بھی نہیں اب تو
جنابِ سیدِ کون و مکاںؐ دہائی ہے
قدم قدم پہ کھڑی آہنی سی دیواریں
ہوا کو، روشنی کو روکنے کے منصوبے
شبِ سیہ کے محافظ کھڑے ہیں چاروں طرف
حضورؐ ضبط کا یارا نہیں غلاموں میں
حضورؐ حرفِ صداقت پہ جبر کی مہریں
ہوائے صدق و صفا کا نہیں دیا روشن
خلافِ عقل ہے دانشوروں کی ہر حکمت
جہالتوں کے پلندے ہیں مکتبوں کا نصاب
قبائے فکر و نظر پر نہیں کسی کی نظر
بھٹک رہے ہیں بیاباں میں تتلیوں کے ہجوم
مذاقِ حسنِ گلستاں نہیں بہاروں میں
حضورؐ، خواب ہوا خوشبو و صبا کا سفر
اداس نسل کے کل پر ہیں ہاتھ نفرت کے
بھرے ہوئے ہیں کٹورے کدورتوں سے ہنوز
کوئی کرن کوئی اُمّید یارسولؐ اللہ
سکوں، قرار یہاں کچھ بھی تو نہیں آقاؐ
دیے ہوائوں کے اب فیصلے کی زد میں ہیں
حضورؐ لغزشِ پا کا جواز کیا ڈھونڈیں
متاعِ فکر و نظر کی حضورؐ ناقدری
جہانِ دانش و افکار پر مسلّط ہے
ردائے گرد و غبار و نفاق کا موسم
قفس میں موسمِ دار د رسن کی آمد ہے
اگی ہوئی ہے صلیبوں کی فصل چہروں پر
بنا رہا تھا میں کاغذ کی کشتیاں کب سے
یہ جان کر بھی کہ موجوں سے مجھ کو لڑنا ہے
کٹی کٹی ہیں ہوائے نفس کی زنجیریں
بُجھی بُجھی ہے دریچوں میں چاندنی آقاؐ
لُٹی لُٹی ہے مساوات و عدل کی مسند
حضورؐ آپ کے نقشِ قدم کی بھیک ملے
شجر کی شاخِ بریدہ پہ کوئی پھول کھِلے