اکیسویں صدی کی پہلی دعائیہ نظم- خلد سخن (2009)
اکیسویں صدی کی پہلی دعائیہ نظم
اکیسویں صدی میں خداوندِ دوجہاں!
اُنؐ کے نقوشِ پا کی مجھے کہکشاں ملے
سورج غبارِ وادیٔ بطحا کے سر پہ ہو
توفیقِ نعتِ سرورِ کون و مکاں ملے
دونوں ہتھیلیوں پہ سجائے ہوئے چراغ
کشتِ شعور و فکر میں اُتریں صد آفتاب
بوئے چمن بھی پرچمِ توصیف میں ملے
یا رب! نواحِ لوح و قلم میں کھلیں گلاب
پچھلی صدی کے سرمدی اعزاز کی طرح
موسم بہارِ نعت ہی کا آسماں میں ہو
یا رب! بفیضِ نعتِ نبیؐ اس صدی میں بھی
بختِ رسا ریاضؔ کا ہر آسماں میں ہو
دہلیزِ مصطفیٰؐ سے رہے ربط ہر گھڑی
ہر لمحہ ورد صلِّ علیٰ کا کیا کرے
لوح و قلم، حروف و ورق، عقل و آگہی
میلہ سا ایک اُنؐ کی ثنا کا لگا رہے
انساں جسے تلاش ہے امن و سکون کی
لائے درِ حضورؐ پہ دامانِ آرزو
کشکولِ جان و دل میں سجائے زرِ خلوص
ہر وقت ہو دیارِ محمدؐ کی جستجو
آقا حضورؐ! صرف ضعیفی کے جرم میں
سر پر ہمارے تاجِ فضیلت نہیں رہا
رسوائیوں کی گرد میں لپٹے ہوئے بدن
قول و عمل میں نورِ مشیت نہیں رہا
صحنِ چمن میں اُتریں دھنک کے تمام رنگ
ہر سَمْت خوشبوؤں کے چراغوں کا راج ہو
ہر مجلس درود اُنہیؐ کی ہو منتظر
حرفِ دعا کے سر پہ شفاعت کا تاج ہو
دامن میں آرزو کے گلستاں کھلے رہیں
اوراقِ جان و دل پہ اُتر آئیں آفتاب
نوکِ قلم پہ موسمِ گل کا رہے خمار
نعتِ حضورؐ لب پہ سجاتی رہے گلاب