صدی آشوب- خلد سخن (2009)
جہاں سے آپؐ کو ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
میں جاں نثاروں کے، ہاں، اُس وطن سے آیا ہوں
کفن فروش ہیں ہر سمت اس لئے آقاؐ
میں آپ اپنا ہی لاشہ اٹھا کے لایا ہوں
منافقت ہے رقم مصحفِ ورق پہ حضورؐ
قلم پہ کب سے تذبذب کا ایک عالم ہے
غضب خدا کا سرِ شام غم کی تختی پر
جو حرف لکھا گیا ہے وہ حرفِ ماتم ہے
جلیں گے اپنی ہتھیلی پہ کیا دیے آقاؐ
ہر ایک سَمْت سے طوفاں نے آن گھیرا ہے
ہر ایک سَمْت ہوا نے کماں اُٹھائی ہے
ہر ایک سَمْت تضادات کا اندھیرا ہے
شکست جن کی جبینوں پہ ثبت ہے آقاؐ
نئے شعور کی مشعل جلانے آئے ہیں
جو خود فریبی کے جنگل کا رزق ہیں خود بھی
وہ مجھ کو راہِ عزیمت دکھانے آئے ہیں
ازل سے اپنے مفادات کے جو قیدی ہیں
وطن میں اُن کی امامت سے خوف آتا ہے
منافقت ہے رقم جن کے دستِ قدرت پر
حضورؐ اُن کی عدالت سے خوف آتا ہے
ہوا ہے حکم کہ ساحل پہ ڈوب جاؤ تم
عجیب کرب کا عالم ہے آشیانوں میں
حضورؐ آپؐ کی اُمت کی کشتیوں کی خیر
بھری ہے آگ ہواؤں نے بادبانوں میں
ہوائے جبرِ مسلسل ہے روز و شب پہ محیط
چراغ بجھنے لگے علم کے دفینوں کے
لہو کی فصل مرے آنگنوں تک آ پہنچی
حضورؐ کب سے مقفل ہیں لب مکینوں کے
حضورؐ دہر میں اُمت شکستہ پر اُمت
اُڑان بھرنے کی بھی آرزو نہیں رکھتی
لُٹی ہے غیرتِ ملّی کی اس طرح دولت
یہ سر اُٹھا کے بھی چلنے کی خُو نہیں رکھتی
عدو ہیں میری اکائی کے در پئے آقاؐ
چہار سمت سپاہِ شبِ قدامت ہے
چہار سمت ہے فرسودگی توہم کی
چہار سمت کھڑی آج بھی جہالت ہے
نصابِ نقشِ کفِ پا ہی مستند ٹھہرا
ازل سے نور یہی ہے رواں فضاؤں میں
صراطِ عشق پہ ہیں نصب سنگِ راہ گزر
بھٹک نہ پائیں گے اب قافلے خلاؤں میں
شعور و عدل کا موسم اُترنے والا ہے
ہوائے شہرِ مدینہ ضرور آئے گی
حضورؐ اپنے غلاموں کو حوصلہ دیجئے
نظامِ جَبْر کی زنجیر ٹوٹ جائے گی
بلندیوں کے تصوّر کا آخری زینہ
ترے نقوشِ قدم کے ہر آسماں پر ہے
مجھے بھی بخش دے بیدار قلب کی دولت
تراؐ ہی اسمِ گرامی مری زباں پر ہے
مرے رسولؐ، مرے پیشواؐ، مرے ہادیؐ
مری نوا کو عطا ہو نوائے لوح و قلم
اُلجھ رہی ہیں حوادث کی آندھیاں کب سے
کرم حضورؐ مرے حالِ زار پر بھی کرم