کڑی دھوپ میں ہر قدم پر کسی کے کرم کے مسلسل شجر دیکھتے ہیں- کشکول آرزو (2002)
کڑی دھوپ میں ہر قدم پر کسی کے کرم کے مسلسل شجر دیکھتے ہیں
کہ پھر عرصۂ کرب کو اپنے اشکوں میں ہوتے ہوئے مختصر دیکھتے ہیں
ہر اک سانس صل علیٰ کہہ رہی ہے کہ خوشبو سر شاخ جاں کہہ
رہی ہے
خیالات کی وادیٔ دلکشا میں مہکتے ہوئے بام و در دیکھتے ہیں
اماں ہی اماں ہے ہمارا مقدر بفضل خدا اور بفیض پیمبرؐ
حصار طلسم شب ناروا کی صداؤں کو بھی بے اثر دیکھتے ہیں
خزاں آشنا کب نظر ہے ہماری کہ محوِ تکلم ہے بادِ بہاری
انہی کے نقوشِ قدم کی کناری ادھر دیکھتے ہیں ادھر دیکھتے ہیں
صبا ان کا پیغام لائی کہ لائی ہوا ان کے کوچے سے آئی کہ
آئی
کہ چشم تصورمیںبرسوںسے ہم بھی مدینے میں چھوٹا سا گھر دیکھتے ہیں
بڑی تمکنت سے چلے آرہے ہیںوہؐ سدرہ سے آگے بڑھے جا رہے ہیں
سر عرش حور و ملائک کے لشکر کہ حیرت سے اوجِ بشر دیکھتے ہیں
نہ زاد سفر ہے نہ سامان کوئی بجز دید آقا نہ ارمان کوئی
ملے جن کو اذن سفر وہ پرندے بدن پر کہاں بال و پر دیکھتے ہیں
طلب ہاتھ باندھے ادب سے کھڑی ہے دعا انکی دہلیز پر آ پڑی
ہے
یقینا یہ مقبولیت کی گھڑی ہے چراغاں پس چشم تر دیکھتے ہیں
مسائل کی جلتی ہوئی اس فضا میں وہیں سے تو آتی ہیں ٹھنڈی
ہوائیں
یونہی تو نہیں ہم مدینے کی جانب محبت سے شام و سحر دیکھتے ہیں
گنہگار و عاصی شفاعت کی چادر سر حشر سرکار سے مانگ لیں گے
مرادوں سے بھرتے ہیں جھولی وہ سب کی کہاں وہ کسی کا ہنر دیکھتے ہیں
نقوش کف پا کی خیرات ہے یہ مسلسل عطاؤں کی برسات ہے یہ
لرزتے سے ہاتھوں کے کشکول میں ہم ابھی سے ’زرِ معتبر‘ سیکھتے ہیں
قلم لوح جاں پر رواں دواں ہے مدینے کی جانب سخن پرفشاں ہے
افق تا افق چاند تاروں کو اپنا ازل سے شریک سفر دیکھتے ہیں
نمی پھیل جاتی ہے ساری فضا میں سلگنے سی لگتی ہے حرف دعا
میں کہ
مضروب طائف کے زخموں کا سن کر کسی کی اگر چشم تر دیکھتے ہیں
برہنہ سروں کو ردائے غبار رہ مصطفی ڈھانپ لے گی یقیناً
چلو اپنی پلکوں کے خیمے میں چھپ کر مدینے کی ہر رہگذر دیکھتے ہیں
ریاضؔ ان سگان در مصطفی کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں ہم بھی
عجب روز و شب ہیں عجب بیخودی ہے تماشائے اہل نظر دیکھتے ہیں