اشکوں کے موجزن تھے سمندر تمام شب- خلد سخن (2009)
اشکوں کے موجزن تھے سمندر تمام شب
لب پر رہی ہے نعتِ پیمبرؐ تمام شب
کیا خوب، میرے ساتھ شریکِ ثنا رہے
بزمِ درود میں مہ و اختر تمام شب
میری جبینِ شوق میں بھی جاگتے رہے
دہلیزِ مصطفیٰ کے یہ منظر تمام شب
آقا حضورؐ! چشمِ کرم کی طلب لئے
خلقت رہی ہے آپؐ کے در پر تمام شب
رکھے ہتھیلیوں پہ نئے دن کی روشنی
بانٹے چراغ شہرِ منّور تمام شب
خوشبو کے ساتھ رَقصِ مسلسل میں بھی رہے
نوکِ قلم پہ حرفِ معطر تمام شب
نعتِ رسولِ پاک کے لطفِ عمیم میں
ڈوبا رہا ہے میرا مقدر تمام شب
بستی کے ہر مکین کا اعزاز ہے کہ پھر
میلادِ مصطفیٰؐ ہوا گھر گھر تمام شب
پڑھ کر درود آپؐ پہ لب چومتا رہا
اِک کیفِ سرمدی مرے اندر تمام شب
اُمت دیے جلانے کے قابل نہیں رہی
تیرہ شبی کے ٹوٹیں گے لشکر تمام شب
آقاؐ، غلام آپؐ کے طائف میں ہیں ہنوز
برسے ہیں ان پہ آج بھی پتھر تمام شب
گرتے رہے ہیں خیمہء افلاک سے، ریاضؔ
کشکولِ آرزو میں جواہر تمام شب