بلادِ عشق کی ہر رہگذر میں رہتے ہیں- کشکول آرزو (2002)
بلادِ عشق کی ہر رہگذر میں رہتے ہیں
سفر کا کیا ہے ازل سے سفر میں رہتے ہیں
ہتھیلیوں پہ سجا کر چراغِ وصفِ نبیؐ
ہوا کے ساتھ ِہمیں بحر و بر میں رہتے ہیں
طوافِ گنبدِ خضرا میں عمر کٹ جائے
عجیب شوق مرے بال و پر میں رہتے ہیں
ابھی سے کیفِ حضوری میں غرق ہیں آنکھیں
مری بلا سے سفینے بھنور میں رہتے ہیں
یہی نجات کا باعث بنیں گے محشر میں
جو آبگینے مری چشمِ تر میں رہتے ہیں
دھنک، گلاب، ہوا، چاندنی، صبا، شبنم
بفیضِ نعت دیارِ ہنر میں رہتے ہیں
درِ نبیؐ ہے فقط ان کا مرکز و محور
خیال و خواب جو آشفتہ سر میں رہتے ہیں
ہمیں خبر ہی نہیں رات کے گزرنے کی
طویل کب ہے شبِ مختصر میں رہتے ہیں
کرم کا ایک سمندر ہے موجزن ہر سُو
غریبِ شہر بھی اُنؐ کی نظر میں رہتے ہیں
سلام کہتی ہیں بچوں کے ساتھ دیواریں
مرے حضورؐ غریبوں کے گھر میں رہتے ہیں
انہیں نصیب ہو پھر موسموں کی ہریالی
غلام آپؐ کے شب کے کھنڈر میں رہتے ہیں
اماں ہمارا مقدر ہے اس لئے کہ ریاضؔ
حصارِ مدحتِ خیر البشرؐ میں رہتے ہیں