یوں تو میں بظاہر یہاں مصروفِ ثنا ہوں- کشکول آرزو (2002)
یوں تو مَیں بظاہر یہاں مصروفِ ثنا ہوں
سچ پوچھئے تو شہرِ محمدؐی میں کھڑا ہوں
گزرے گا ادھر سے بھی مدینے کا مسافر
مَیں نقشِ قدم بن کے سرِ راہ سجا ہوں
ہر زائرِ طیبہ کے قدم چومیں ہیں مَیں نے
صدیوں سے مَیں دہلیزِ پیمبرؐ پہ پڑا ہوں
لبریز ہے کشکول مرا اُنؐ کے کرم سے
مَیں اُنؐ کے گداؤں کے گداؤں کا گدا ہوں
مکّے میں پذیرائی کا منظر بھی عجب تھا
مہمان مدینے میں بھی ٹھہرایا گیا ہوں
کیا اوجِ ثریا پہ ہے قسمت کا ستارا
دربار کے اک گوشے میں مَیں نعت سرا ہوں
اس سوچ میں گم ہوں سرِ انوار و تجلی
مَیں کس کے نگر میں ہوں یہ کیا دیکھ رہا ہوں
جز آپؐ کے قدموں کے نہیں کوئی کوئی ٹھکانہ
سرکارؐ غلاموں میں سے مَیں سب سے بڑا ہوں
رحمت کی ضرورت ہے مجھے سب سے زیادہ
سرکارؐ مَیں گردابِ مصائب میں گِھرا ہوں
مٹھی میں مری ایک بھی جگنو نہیں آقاؐ
جیسے مَیں کسی شاخِ برہنہ پہ کھِلا ہوں
نغمہ کوئی پھوٹے لبِ قرطاس و قلم سے
ٹوٹے ہوئے ہندارِ تمنا کی صدا ہوں
ہر دل کو سکھا دوں گا تڑپنے کا سلیقہ
آنسو ہوں مَیں جذبات کی شاخوں پہ کھِلا ہوں
سانسوں میں مہکتی ہیں ریاضؔ آج بھی کلیاں
کچھ دن میں مدینے کی فضاؤں میں رہا ہوں