پُرسانِ حال راستے کا ہر شجر ہوا- خلد سخن (2009)
پُرسانِ حال راستے کا ہر شجر ہوا
طے اِس طرح بھی شہرِ نبیؐ کا سفر ہوا
نعتِ نبیؐ کی بادِ بہاری چلی ہے پھر
مجھ پر کرم حضورؐ کا شام و سحرا ہوا
شہرِ فراق و ہجر سے شہرِ حضورؐ تک
دامانِ شوق اشکِ ندامت سے تر ہوا
پھر یوں لگا کہ جیسے زمانے گزر گئے
گزرا جو طیبہ میں وہ بڑا مختصر ہوا
جن و بشر کے واسطے محشر کے روز بھی
جائے پناہ دامنِ خیر البشرؐ ہوا
اشکوں کے ہار مجھ سے صبا نے طلب کئے
جب بھی کبھی صبا کا ادھر سے گزر ہوا
بازارِ مصر میں جسے پہچاں نہ مل سکی
بازارِ عشق میں وہ زرِ معتبر ہوا
اب کے برس بھی ایک پرندہ مرے حضورؐ
اُڑتے ہوئے فضاؤں میں بے بال و پر ہوا
پلکوں پہ چل کے آنے کی حسرت لئے ہوئے
حاضر درِ حضورؐ پہ اِک بے ہنر ہوا
جب سے غلامِ والیٔ طیبہ ہوا ہوں مَیں
وہ شہرِ بے مثال ہے میرا بھی گھر ہوا
گلشن میں سر اُٹھانے کی پاداش میں حضورؐ
ظلمِ عظیم پیڑ کی ہر شاخ پر ہوا
لب پر ثنا کے دیپ جلاتے ہوئے ریاضؔ
ایک ایک لمحہ عمرِ رواں کا بسر ہوا