سلام سے پہلے- کشکول آرزو (2002)
نگاہیں ادب سے جھکائے ہوئے ہوں
سبھی اپنی پلکیں بچھائے ہوئے ہوں
دیارِ دل و جاں کی پگڈنڈیوں پر
غلامی کے پرچم اٹھائے ہوئے ہوں
یہ خوشبو کے جھونکے ہتھیلی پہ اپنی
چراغِ تمنّا جلائے ہوئے ہوں
دھنک ہر طرف رنگ بکھرا رہی ہو
در و بام سارے سجائے ہوئے ہوں
تصور میں نقشِ قدم اُنؐ کے لا کر
مدینہ دلوں کو بنائے ہوئے ہوں
کنیزیں کھڑی ہوں قطاروں کے اندر
اور آنکھوں میں آنسو بھی آئے ہوئے ہوں
ریاضؔ احتراماً اٹھیں اہلِ محفل
عجب کیا وہؐ تشریف لائے ہوئے ہوں