دیے پھر جلانے کو جی چاہتا ہے- کشکول آرزو (2002)
غمِ شب مٹانے کو جی چاہتا ہے
دیے پھر جلانے کو جی چاہتا ہے
کوئی ذکر چھیڑے دیارِ نبیؐ کا
درِ مصطفیٰؐ پر کھڑی بے خودی کا
غبارِ رہِ پاک کی دلکشی کا
کہ آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے
جو اترے ہیں دل کے سفینے سے ان کو
نفاست، محبت، قرینے سے ان کو
جو آئے ہیں زائر مدینے سے ان کو
گلے سے لگانے کو جی چاہتا ہے
لبوں پر سجا کر صداؤں کے پیکر
بسا کر دل و جاں میں جنت کے منظر
کسی کے قدومِ مبارک پہ گر کر
مرا سر چھپانے کو جی چاہتا ہے
مہکتی ہوئی سرمدی روشنی میں
حریمِ شفاعت کی تابندگی میں
مرے جذبۂ عشق، شہرِ نبیؐ میں
تجھے آزمانے کو جی چاہتا ہے
یہ میلاد کی شب ہے خوشیاں منائیں
چراغِ وفا آنگنوں میں جلائیں
صبا تیرے ہاتھوں پہ کرنیں بچھائیں
درِ دل سجانے کو جی چاہتا ہے
انہیں سیّدی مرشدی کہتے کہتے
شہِ مرسلِ آخری کہتے کہتے
ریاضؔ آج نعتِ نبیؐ کہتے کہتے
ذرا جھوم جانے کو جی چاہتا ہ چے
غمِ شب مٹانے کو جی چاہتا ہے
دیے پھر جلانے کو جی چاہتا ہے